عبدالقادر جونیجو: ’چھوڑو‘ ہمیں چھوڑ گیا


سندھی میں لمبی لمبی چھوڑنے کو ’ڈاڑ‘ لگانا یا ڈاڑ مارنا کہتے ہیں۔ عبدالقادر جونیجو، جو 30 مارچ کو ہمیں الوداع کہ گئے، ایک اعلانیہ ڈاڑی تھے۔ ’ڈاڑ مارنے میں کوئی ہمارا مقابلہ کرکے دکھائے تو مانیں! ‘ ۔ وہ لمبی لمبی چھوڑنے کو اس کے روایتی معنوں میں نہیں لیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ لمبی چھوڑنا دراصل ایک فکشن نگار کا بنیادی ہنر ہوتا ہے۔ آپ جس خوبصورتی اور کاریگری سے لمبی چھوڑیں گے آپ اتنے ہی بڑے فکشن نگار ہوں گے۔

جب آپ کے خمیر میں صدیوں پرانی داستان گوئی کی روایت ہو، آپ کی مٹی لوک دانش سے گوندھی گئی ہو، آپ دنیا جہان کے ادب سے آشنا ہوں، دنیا کی کوئی اہم کتاب حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی تگ و دو کرنا آپ کی عادت ہو، آپ جدید سے جدید تر ادبی روایتوں سے روشناس ہوں لیکن آپ کی جڑیں تھر کی سوندھی مٹی میں ہوں، آپ کے ڈکشن پر کسی بڑے ادیب، کسی بڑی ادبی تحریک اور روایت کی چھاپ نہ ہو تو سب جان لیں کہ عبدالقادر جونیجو کی بات ہورہی ہے اور آپ جیسا ’چھوڑو‘ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ مخصوص انداز میں سگریٹ پینے سے لے کر بے باکی سے لکھنے تک دھڑلے سے جینے کا ڈھنگ اس ’چھوڑو‘ کا خاصہ تھا۔ کئی دوست احباب ان کو پیار سے ’استاد‘ پکارتے تھے۔

عبدالقادر جونیجو کا جنم صحرائے تھر اور بارانی سندھ کے سنگم پر واقع گوٹھ جنہان میں یکم نومبر 1945 میں ہوا۔ ہاکڑو ندی جس کی تہذیبی حیثیت اور کئی ناموں سے آپ واقف ہوں گے، یہ گاؤں اس کے کنارے آباد تھا تو آپ اندازہ کریں کہ لوک دانش ان کے خمیر میں کیوں شامل تھی۔ پہلی کہانی 1963 میں اس وقت کے مشہور رسالے ’روح رہان‘ میں لکھی اور اس کے بعد لکھتے ہی گئے۔ والد صاحب پولیس افسر تھے لیکن عبدالقادر جونیجو پولیس میں اے ایس آئی کے طور پر بھرتی ہوئے تو والد صاحب نے انہیں پولیس کے بجائے تدریس کا شعبہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا جو انہوں نے مان لیا۔ آگے چل کر انہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم کو آگے بڑھایا بلکہ شعبہ تدریس کے بعد سندھ یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی میں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے کے سربراہ کے طور پر ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ سندھی لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین بھی رہے۔

سندھی افسانوی ادب میں جو مقام عبدالقادر جونیجو نے حاصل کیا وہ مشکل سے ہی نصیب ہوتا ہے۔ ڈرا مے کی طرف آئے تو پی ٹی وی پر سندھی ڈرامے ’رانی جی کہانی‘ سے شہرت پانے کے بعد اسی ڈرامے کو ’دیواریں‘ کے نام سے اردو میں لکھا اور نہ صرف پاکستان لیکن دنیا بھر میں شہرت کے ریکارڈ قائم کیے۔ جب پی ٹی وی کے ڈرامے کا عروج تھا تو اس وقت عبدالقادر جونیجو کا نام ہی کافی تھا۔ دیواریں ہو، چھوٹی سی دنیا ہو یا پھر پرائیویٹ ڈرامہ پراڈکشن کے ابتدائی دنوں میں بننے والا ’دکھ سکھ‘ ہو، عبدالقادر جونیجو نے لازوال کردار اور کہانیاں تخلیق کیں۔ البتہ سندھی افسانے کو انہوں نے وہ وقت اور صلاحیتیں نہیں دیں جو بقول خود ان کے انہیں دینی چاہئیں تھیں۔ افسانوں، خاکوں، تراجم، کالم، خطوط اور ناول پر مبنی ان کی 15 سے زائد کتابیں شائع ہوئیں۔

عبدالقادر جونیجو لوک دانش، بشریات اور سماجیات کو بہترین تخلیقی انداز میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ سندھی کی روایتی داستان گوئی کو افسانے، ڈرامے یا کالموں میں بیان کرکے متعدد موضوعات پر شاندار معلومات تخلیق کر چکے تھے۔ ان کے کالم منفرد لہجے اور زبان کی چاشنی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ اگر آپ کو سندھی زبان کی مٹھاس اور چاشنی چکھنی ہو تو عبدالقادر جونیجو کی تحریروں کو پڑھیے۔ اور ان کے ساتھ بات اور ملاقات کا تو کیا ہی کہنا۔

وہ صحیح معنوں میں عوامی آدمی peoples ’person تھے۔ ویسے تو ان کی نظر میں دوستی کے لئے کسی عمر یا جنس کی قید نہیں تھی لیکن اگر آپ اچھے پڑھنے والے ہیں تو آپ ان کے بہترین دوست ہیں۔ دنیا بھر کے ادب کے شہ پارے جتن کرکے منگانے اور ان کو فوری طور پر پڑھ کر ان پر تبصرے لکھنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ انہوں نے کتابوں کے بارے میں معلومات دوسروں تک پہنچانے کے بارے میں لکھا ہے کہ‘ جس طرح کسی مہمان نواز شخص کو اپنا کھانا بانٹے بغیر کھانے کا مزہ نہیں آتا، اسی طرح میرا دل کرتا ہے کہ جو کچھ پڑھوں وہ دوسروں کے ساتھ شیئر کروں۔

’ان کی یہ مہمان نوازی صرف کتابوں پر تبصرے لکھنے تک محدود نہیں تھی لیکن راقم سمیت کئی ادیب ان کی جانب سے کتابیں ملنے جیسی سخاوت سے مستفید ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے، میں ابھی اسکول کا طالبعلم تھا اور ان کے مداح کی حیثیت میں سندھ یونیورسٹی میں ان کے گھر اپنے دوست قادر کندھر کے ساتھ ملنے گیا تو مجھے ان کی جانب سے تحفے میں دو کتابیں ملیں۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا میں کتابیں جمع کرنے میں نہیں لیکن بانٹنے میں یقین رکھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ وہ صرف وہ کتابیں اپنے پاس رکھتے ہیں جن کے بارے میں یقین ہو کہ انہیں دوبارہ ضرور پڑھیں گے ورنہ ہر کتاب پڑھ کر آگے بڑھادیتے ہیں۔ ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ تواتر سے جاری نہ رہ سکا لیکن جب بھی موقع ملا ان کے پاس حاضر ہوئے اور بلا کسی تکلف کے انہوں نے وہی اپنائیت دی جو تیس سال پہلے پہلی ملاقات میں دی تھی۔ جب عبدالقادر جونیجو مجھے جانتے بھی نہیں تھے، میں ابھی ہائی اسکول کا طالب علم تھا تو میری فرمائش پر میری پہلی کتاب کا دیباچہ لکھ کر دے دیا۔ کتابیں بانٹنے کی ان کی مہمان نوازی آخری وقت تک جاری رہی۔

جس طرح وہ کتاب بانٹنے میں سخی تھے اسی طرح کسی اچھی تحریر یا اچھی کتاب یا اچھے لکھاری کی بھی دل کھول کر تعریف کرتے تھے۔ ایک بار ہم اسلام آباد میں ہمارے دوست اور معروف صحافی اعجاز مہر کے مہمان تھے۔ شفی نقی جامعی صاحب شریک محفل تھے۔ محفل اپنے عروج پر تھی تو اچانک شفی نقی جامعی صاحب نے استفسار کیا کہ میرے یار قادر جونیجو کا کیا حال ہے۔ ایک ساتھی نے انہیں جونیجو صاحب کا نمبر ملا کر دیا۔ جامعی نے کہا ”جونیجو صاحب، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کا کون سا مداح آپ سے مخاطب ہے؟ “ جونیجو صاحب نے کہا یار میں خود تمہاری طرح چوتھے گیئر میں چل رہا ہوں لیکن بات کرتے رہو میں پہچان لوں گا۔ ابھی گفتگو ایک دو منٹ مزید آگے بڑھی ہوگی کہ جونیجو صاحب نے کہا ”یار جامعی اپنے آپ کو میرا مداح کہ کے کیوں شرمندہ کر رہے ہو، میں تمہاری آواز کا اس سے بھی بڑا مداح ہوں“۔

سندھی فکشن کے نئے لکھنے والوں کی فراخ دلانہ حوصلہ فزائی میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اگر آپ نے کچھ اچھا لکھا ہے تو آپ کے بارے میں ضرور ایسی رائے دیں گے جو آپ تا عمر سند کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

بہت کچھ لکھ گئے لیکن بہت کچھ ابھی نہیں لکھ سکے۔ گذشتہ کئی سال سے علالت کے باجود لکھنے کا سفر جاری رکھا تاہم جس رفتار اور منصوبہ بندی سے وہ لکھنا چاہتے تھے صحت اور حالات نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔ عبدالقادر جونیجو کی پہچان منفرد لکھاری والی تو رہے گی ہی لیکن منفرد، مخلص اور دلچسپ شخصیت والی پہچان میرے جیسے کئی مداحوں اور دوستوں کی یاد میں درخشان ستارے کی طرح چمکتی رہے گی۔ انہوں نے ہاکڑو ندی پر انگریزی میں ناول ”The Dead River“ لکھا اور اس ندی کے کنارے واقع اپنے گاؤں میں تدفین کی وصیت بھی کی۔ عظیم تہذیب کی امین ہونے کے ساتھ یہ ندی اب اپنے بیٹے عبدالقادر جونیجو کی بھی نگران رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments