نجی چینل عارضی طور پر بند کرنے کی مہم


چین کے شہر ووہان میں کرونا وبا پھوٹی تو مغربی میڈیا نے اس ملک کے ”آمرانہ نظام“ کو اس کے قابو سے باہر ہونے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ تواتر سے لوگوں کو یاد دلایا گیا کہ جب اس شہر کے ڈ اکٹروں نے ایک ”ناقابل علاج“ نظر آنے والے ”نزلہ زکام“ کی بابت سوشل میڈیا پر کچھ اطلاعات فراہم کیں تو انہیں ”خوف“ پھیلانے کا مجرم گردانا گیا۔ چند روز پولیس کی حراست میں گزارنے کے بعد وہ ڈاکٹر عوام سے معافی مانگنے پر مجبور کیے گئے۔ المیہ یہ بھی ہوا کہ مجرم ٹھہرائے ڈاکٹروں میں سے چند افراد مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے خود بھی اس وائرس کی زد میں آکر جان سے گئے۔

ووہان میں وبا بے قابو ہوئی تو چین نے تمام بڑے شہروں میں کرفیو جیسا لاک ڈاؤن مسلط کردیا۔ مغربی میڈیا نے اس لاک ڈاؤن کو بھی ”آمرانہ“ نظام کا اظہار بتایا۔ چین کے سیاسی نظام کی مذمت کے علاوہ طویل مضامین کے ذریعے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش بھی ہوئی کہ وہاں کی ”ثقافت“ کرونا کے پھیلاؤ کی حقیقی ذمہ دار ہے۔

چینیوں کو عجیب الخلقت جنگلی جانور کھانے کا جنون ہے۔ ان میں سے چند جانوروں کو چمگادڑ کی بدولت یہ وائرس ملا۔ ان جانوروں کا گوشت کھانے میں استعمال ہوا تو وبا پھوٹ پڑی۔ چینی عوام میں مقبول پکوان کوکرونا کی وجہ ٹھہراتے ہوئے یہ تاثر بھی پھیلایا گیا کہ دیگر اقوام اس مرض سے غالباً بچی رہیں گی۔ فقط چینیوں ہی کو اس مرض کا کیرئیر بنادیا گیا۔

نسلی تعصب سے مغلوب ہوکر پھیلائے اس تاثر کی بدولت دُنیا بھر میں چینی نسل سے متعلق افراد کو اچھوت بنانے کی کوششیں ہوئیں۔ امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ کے کئی ممالک میں ان کی سرعام تذلیل کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ محض ”پکوان“ کی بنیاد پر تعصب پھیلاتے میڈیا نے اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ وبا کسی بھی ملک میں پھوٹ پڑے تو وہاں تک محدود نہیں رہتی۔

آج کا گلوبل ویلج چینیوں سے قطعی لاتعلق ہونہیں سکتا۔ اس کی معیشت دُنیا بھر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یورپ کے تقریباً مرکز میں واقعہ اٹلی کے شمال میں موجود خوش حال شہر جو فیشن انڈسٹری میں نت نئے ڈیزائن اور برانڈز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں گزشتہ کئی برسوں سے چینی معیشت کے ساتھ بھرپور انداز میں جڑچکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں چینی بھی ان شہروں میں آباد ہیں۔ فیشن انڈسٹری سے منسلک کئی مشہور کمپنیاں ان کی ذاتی ملکیت میں ہیں۔

اٹلی میں آباد چینی کاروبار کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ ”مادرِ وطن“ ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرتے اور وہاں سے واپس لوٹتے رہے۔ اپنے شہروں پر کامل لاک ڈاؤن مسلط کرتے ہوئے چینی حکومت دُنیا کو درحقیقت یہ بتاتی رہی کہ روایتی میل ملاپ اس وبا کے پھیلاؤ کا اصل سبب ہے۔ سماجی دوری اختیار کیے بغیر اس مرض سے بچنا ممکن نہیں۔

اٹلی والوں نے اس پہلو پر توجہ نہیں دی۔ ان کی ثقافت میں پاکستانیوں کی طرح جپھیاں ڈال کر محبت کا اظہارہوتا ہے۔ اسی باعث جب بالآخر اٹلی کے شمال میں یہ وبا پھوٹی تو وہاں صحت عامہ کا نظام اس کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔

بہت نقصان ہوجانے کے بعد اٹلی کی حکومت اپنے ”جمہوری ملک“ میں کرفیوجیسا وہی لاک ڈاؤن مسلط کرنے کو مجبور ہوئی جو چین کو اختیار کرنا پڑا تھا۔ اٹلی میں صحتِ عامہ کا نظام ڈھیر ہوجانے کی وجہ سے اُبھرے نتائج سے گھبرا کر پاکستان جیسے ممالک بھی لاک ڈاؤن کو مجبور ہوئے۔ مودی سرکار نے اس ضمن میں لیکن انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع اور تیاری کے بھارتی وزیر اعظم نے ایک روز اچانک اپنے ملک میں 21 دن کے لئے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا۔

اس لاک ڈاؤن کے لاگو ہونے کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں دیہاڑی دار بھارتی وہاں کے دلی جیسے شہروں سے پیدل اپنے گھروں کو جانا شروع ہوگئے۔ آبائی قصبوں تک پیدل جاتے لوگوں کے قافلوں نے قیامت خیز منظر دکھائے۔ بھارتی حکومت ان کے لئے مناسب ٹرانسپورٹ فراہم نہ کرسکی۔ تین سے چار دنوں کا پیدل سفر اپنی جگہ اذیت دہ تھا۔

اس سفر کے بعد مگر آبائی شہروں میں لوٹتے قافلوں کو جانوروں کی طرح ٹولیوں میں بیٹھ کر ”جراثیم کش“ ادویات کے فواروں یعنی سپرے کی ذلت بھی برداشت کرنا پڑی۔ وبا سے گھبرائے ہوئے قافلوں کی جانب سے عافیت کی تلاش نے ہولناک مناظر دکھائے۔ ان مناظر کی وجہ سے مودی سرکار اور اس کے حامی پتھردل نظر آنا شروع ہوگئے۔ نریندرمودی ایک ریڈیو تقریر کے ذریعے عوام سے معافی مانگنے کو مجبور ہوا۔

معافی کا طالب ہونے کے باوجود وہ لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ ارادہ اس نے اب یہ باندھا ہے کہ میڈیا کو کرونا وائرس سے متعلق ازخود خبریں دینے سے روکا جائے۔ جس پابندی کی خواہش ہے اس کو یقینی بنانے کے لئے مودی سرکار نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ اس سے التجا ہوئی ہے کہ وہ عوام میں ”خوف“ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے میڈیا کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ کرونا کے حوالے سے وہی ”خبر“ شائع یا نشر کرے جو سرکاری طورپر جاری کی جائے گی۔

اس ضمن میں صحافیوں کو ازخود تحقیقی خبریں دینے سے روکا جائے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی مستقل میڈیا ہی کو کورونا کی وجہ سے پھیلے خوف کا واحد سبب قرار دیتا رہا۔ وہ مگر میڈیا پر ویسی پابندیاں لگانے کی سکت سے محروم ہے جو مودی سرکار کے من میں آئی ہیں۔ وطنِ عزیز میں بھی عمران حکومت کے بے شمار حامی میڈیا کو کرونا کے نام پر خوف وہیجان پھیلانے کا ذمہ دارٹھہرارہے ہیں۔ حکومت کے کئی حامی بہت تواتر، توانائی اور سنجیدگی سے یہ مہم بھی چلارہے ہیں کہ کم از کم تین ماہ کے لئے پاکستان کے تمام غیر سرکاری ٹی وی چینل بند کردیے جائیں۔

ان چینلز کی وجہ سے لوگوں میں خوف ومایوسی پھیل رہی ہے۔ بحیثیت صحافی میں میڈیا کا دفاع کرنے کو مجبور ہوں۔ پیشہ ور صحافی نہ بھی ہوتا تو غیر جانب داری سے پاکستان کی پرنٹ اور ٹی وی صحافت کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد اصرار کرنے کو مائل ہوتا کہ ہمارے ریگولر میڈیا نے وبا کے موسم میں انتہائی ذمہ داری برتی ہے۔ ہماری اکثریت کرونا کے حوالے سے فقط وہی اعداد و شمار بیان کرتی ہے جو سرکاری ذرائع سے باقاعدہ طورپر فراہم کیے جاتے ہیں۔

اعداد و شمار کا ذکر ہی مگر صحافت نہیں ہے۔ وبا کے موسم میں روزمرہّ زندگی سے جڑے کئی بحران بھی نمودار ہوتے ہیں۔ ان کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ان بحرانوں کو صحافتی نظم کے تحت بیان کرنا بالآخر حکومت ہی کے کام آتا ہے۔ لوگوں کو تسلی ہوجاتی ہے کہ ان کے حقیقی مسائل کا تذکرہ ہورہا ہے۔

یہ تذکرہ پالیسی سازوں کو تفصیلی غوروخوض کے بعد مناسب اقدامات لینے کو راغب بھی کرتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے ذاتی طورپر کرونا کے حوالے سے صحافیوں سے جو گفتگو کی یا قوم سے خطاب فرمایا اس کے ذریعے یہ پیغام مل رہا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے ممکنہ نتائج سے بے خبر نہیں۔ سپلائی چین کے حوالے سے ہمارے میڈیا نے روزمرہّ زندگی کے ٹھوس مشاہدے کے بعد جو اطلاعات فراہم کیں وہ کئی حوالوں سے وزیر اعظم کے بیان کردہ خدشات کا اثبات ہیں۔

بگ پکچر کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے ضرورت سے زیادہ وفادار حامی مگر میڈیا کو خوف پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ انہیں خبر نہیں کہ خلقِ خدا کے وبا کے موسم میں اُبھرے بے تحاشا مسائل کی میڈیا کے ذریعے بروقت نشاندہی نہ ہو تو عوام خود کو لاوارث محسوس کریں گے۔ لاوارثی کا احساس بالآخر غصے میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ صحافتی نظم کی پابندی کرتے ہوئے آزاد میڈیا کی برتی ذمہ داری ممکنہ غصے کا موثر تدارک ہوسکتی ہے۔ اس پہلو کو خدارا نظرانداز نہ کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments