کرونا اور مذہبی شدت پسندی گلے پڑ رہے ہیں


پاکستان میں کوئی اس بات کی حساسیت کو سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ ان کٹھن حالات میں سوشل ڈسٹینسنگ رکھنا کتنا ہی ضروری ہے، سوشل ڈسٹنسنگ رکھ کر ہم اس خطرناک وبا کو کافی حد تک قابو کر سکتے ہیں، لاک ڈاؤن کا مطلب ہی یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہے، فاصلہ میں رہے تاکہ یہ وائرس مزید نہ پھیل جائے۔ کیونکہ یہ ایک خطرناک وائرس ہے ایک ملین متاثرہ افراد میں پچاس ہزار افراد ہلاک ہوگئے ہیں جو کل تک ہمارے طرح دنیاداری میں مصروف تھے، کسی کی وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی جلدی مرجائیں گے۔

پاکستان میں آج کل پولیس کے لئے لوگوں کو سنبھالنا خاصا مشکل کام بن گیا ہے، خاص طور پر نمازی حضرات کو! نمازی حضرات پانچ وقت ہر مسجد کے باہر ہجوم جمع کیا ہوتا ہے کہ مسجد کیوں بند ہے؟ مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں دیا جارہا؟ اب ان کو کون سمجھائیں کہ بات نماز کی نہیں ہے اصل بات ہجوم سے بچنے کی ہے جو اب بھی آپ نے جمع کر رکھا ہے۔ اگر آپ یہاں بحث کے لئے ہجوم جمع کرتے ہیں تو لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ؟ یا مسجد بند کرنے کا کیا فائدہ؟

جیو نیوز کے مطابق جمعہ کو کراچی کے علاقے لیاقت اباد میں جمعے کے نماز مسجد میں پڑھنے کے معاملے پر مولوی کے حکم پر پولیس اور عوام میں جھڑپ ہو گیا ہے، امام مسجد نے لوگوں کو مشتعل کیا تھا۔

اب کوئی بتاسکتے ہیں کہ اس لاک ڈاؤن کا فائدہ ہی کیا ہوا؟
گاؤں قصبوں اور شہروں میں مسجدیں نجی محفلیں لوگوں سے بھری ہوئے ہیں، لوگوں کو اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کھ آنے والے دنوں میں ہم اس بے احتیاطی کی وجہ سے کتنی بڑے مصیبت میں پھنس سکتے ہیں؟

لوگوں کی اس بے احیاطی اور لاپرواہی کی اصل ذمہ دار بھی یہی ریاست ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے لوگوں کو مسجدوں، مدرسوں، تبلیغ اور تعلیمی نصاب کے ذریعے خوب برین واش کیا ہے، ہر کوئی یہی بات کرتا ہے کہ موت سے کون ڈرتا ہے مرجائیں گے تو سیدھا جنت جائیں گے، کیونکہ پڑوسی ممالک کے چکر میں آپ نے لوگوں کا خطرناک مذہبی ذہنیت بنایا گیا ہے۔

اپنے ملک میں شیعہ کے خلاف پروپیگنڈا کرایا گیا کہ یہ کافر ہیں، اقلیتوں کی خلاف پروپیگنڈا کرایا گیا، دین کے نام پر ایسے انتہاپسندانہ لٹریچر اور تعلیمات پھیلائے گئے جس کا اسلام سے تعلق ہی نہیں تھا۔

یہ سب آب اپنے ملک کے حکومت کے اپنے گلے پڑ رہے ہیں، پانی سر سے کہیں اونچا چلاگیا ہے، سب کی یہی ضد ہے کہ نماز مسجد میں پڑھائی جائے کرونا کی ایسی کی تیسی۔

تبلیغی جماعت والوں کو بنایا گیا، جو انتہائی ماہرانہ طریقے سے ملک کو نوجوانوں کو دین کے نام پر پھنسا کر ان کو شدت پسندی کی جانب لے جاتے ہیں۔ یہی تبلیغی جماعت اب اتنا اثر و رسوخ بنا چکی ہے کہ کوئی بھی ان کی خلاف بات برداشت کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی حکومت کا ان پر کوئی بس چلتا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں ان لوگوں نے کرونا پہنچایا ہے۔

دنیا بھر کی حکومتیں، ماہرین طب کرونا وائرس جیسے خطرناک وبا سے نمٹنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں وہی آپ نے علما کرام اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں، اور لوگوں کو مشتعل کر رہے ہیں۔ اگر مولویوں کا یہی رویہ جاری رہا تو پاکستان کو کرونا وائرس کے عذاب سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔

کرونا وائرس کے وبا ختم ہوجانے کے بعد امید ہے حکومت مذہبی شدت پسندی پھیلانے کے معاملے پر نظرثانی کرے گی۔

پاکستان کو مذہبی افراطیت کی ضرورت نہیں، نہ کروڑوں روپے مدارس پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی مدرسے سے ایک بھی ڈاکٹر یا نرس نہیں نکلا ہے جو یونیورسٹیز سے فارع ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر اس مشکل حالات میں مدد کرے۔

پاکستان کو اگلے راونڈ میں مذہبی افراطیت کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا، ہر صورت میں یونیورسٹیز کالج کے طلبا پر دھیان دینا ہوگا، تب اس ملک کا بھلا اور نیک نامی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments