کوئٹہ میں مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کرنے والے


کورونا وائرس ایک خطرناک وبا ہے جو نہ صرف بلوچستان وپاکستان بلکہ پوری دنیا کامسئلہ ہے۔ اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کا واحد حل احتیاطی تدابیراختیار کرنا ہے۔ صوبائی حکومت غریب عوام، مزدور اور دیہاڑی طبقے کے مسائل سے باخبر ہے۔ ان کو ریلیف کی فراہمی کے لئے حکمت عملی بنا رہی ہے۔ یہ صوبائی حکومت میں شامل وزرا، مشیر اورمعاون خصوصی کے وہ بیانات ہیں جو گزشتہ دوہفتوں سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران مختلف ذرائع سے آرہے ہیں لیکن تاحال کوئی حکمت عملی بنی ہے نہ ہی غریب عوام کوریلیف فراہم کیا گیا ہے۔

کوئٹہ شہر کے مرکزباچاخان چوک سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں مزدور، دیہاڑی دار طبقہ اور مستحق افراد صبح سے لے کر رات تک راشن ملنے کی آس پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر مخیر حضرات کی جانب سے کچھ ملا تو ٹھیک ورنہ یہ لوگ مایوس ہوکر لوٹ جاتے ہیں اور اگلی صبح واپس وہ اسی جگہ پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔

صوبائی حکومت کی بے حسی دیکھنے کے بعد مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد غریب کی خدمت کے لئے میدان میں نکلے ہیں۔ ان میں سماجی رہنما، صحافی، تاجراور طلبا شامل ہیں۔ ان لوگوں میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سات ہندو دوست پربت کمار، سنی کمار، ساحل کمار، شیوم، سوراج، اکشے اور وکاش بھی شامل ہیں۔ یہ تمام دوست شاوکشاہ روڈ میں موجود کرشنا مندر میں جمع ہوئے، انہوں نے جیب خرچے سے راشن خریدا اور ان کے پیکٹ بنا کر مستحق افراد میں تقسیم کیے۔

ان طلبا کی خدمت کو دیکھ کر ہندو برادری کے مخیرحضرات نے ان کے ساتھ تعاون شروع کیا جس کے بعد ان دوستوں نے عوامی خدمت کے دائرے کو مزید بڑھایا بعد میں مسلمان شہریوں نے بھی ان کی مدد شروع اور یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا گیا۔ یہ دوست اب تک سینکڑوں خاندانوں میں راشن تقسیم کرچکے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ سلسلہ لاک ڈاؤن کے اختتام تک جاری رہے اور وہ غریب عوام کی خدمت کرتے رہے۔ پربت کمار کی نگرانی میں ان دوستوں نے اب تک مستحق خاندانوں میں 10 لاکھ روپے تک کا راشن تقسیم کیا ہے۔

اسی مندر کے اوپر کے پورشن میں ایک بڑا باورچی خانہ بھی ہے۔ جہاں مندر کے انچارچ سنیل کمار کی نگرانی میں روزانہ 35 سے 40 کلو تک چاول چنے اور بریانی بنائی جاتی ہے اور پھر اس کے پارسل بنا کر شہر کے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان کی بھی کوشش ہے کہ یہ سلسلہ لاک ڈاؤن کے اختتام تک جاری رہے۔

اسی طرح خدمت کے جذبے سے سرشار نذیر بازئی بھی دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ نذیر بازئی 2 دہائی تک پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے منسلک رہے ہیں۔ نذیر بازئی کو چند سال قبل ایک شخص نے کہا تھا کہ ان کے پاس کوئی کام نہیں وہ مجبور ہے کہ اپنے کم عمر بچے کو فروخت کریں۔ یہ بات نذیر بازئی کے دل میں تیربن کر لگی تھی۔ نذیر بازئی نے گھر آکر یہ بات اپنی بچیوں کو بتائی۔ بچیوں نے ان کا حوصلہ بڑھایا ا س طرح نذیر بازئی نے بھی عوامی خدمت کا کام شروع کیا۔

گزشتہ دو ہفتوں سے جاری لاک ڈاؤن کے بعد غریب عوام کی مشکلات بڑھ گئیں تو نذیر بازئی نے دن رات ایک کرکے مستحق اور بیروزگار افراد کی خدمت شروع کی۔ وہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتے ہیں۔ رات تک ہرصاحب حیثیت کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ وہ چندہ حاصل کرنے کے بعد راشن خریدتے ہیں۔ پھر دوستوں کے ساتھ مل کر راشن کے پیکٹ بناتے ہیں پھر یہ راشن مستحق افراد کے گھر تک خود ہی پہنچاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments