وزیر اعظم عمران خان کی گہری باتیں



وزیر اعظم عمران خان نے ایک بہت ہی عجیب بات نہایت یقین کے ساتھ کہی ہے کہ کورونا عمر رسیداؤں کا دشمن اور جوانوں کا دوست ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی یہ بات ان کی اپنی ہی کسی تحقیق کے مطابق درست ہی ہو اس لئے کہ جب چار موسم بارہ ہو سکتے ہیں، درخت رات کو آکسیجن خارج کر سکتے ہیں، جرمنی کی سرحدیں جاپان سے ملائی جا سکتی ہیں تو کورونا ضعیفوں کا دشمن اور جوانوں کا دوست بھی ہو سکتا ہے۔

کورونا سے اب تک 50 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ یہ تو وہ ہلاکتیں ہیں جو کسی طرح دنیا کے علم میں آ چکی ہیں ورنہ معلوم نہیں کہ کتنی بستیاں اور آبادیاں ایسی بھی ہوں جن کا علم حالات کے معمول پر آجانے کے بعد ہو سکے۔ بے شک ان 50 ہزار سے زیادہ ہلاکتوں میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ ہو لیکن یہ کہنا کہ ان ہلاکتوں میں جوان اور چھوٹی عمر کے بچے شامل ہی نہیں ہوں گے ، درست نہیں۔ پاکستان میں اب تک کورونا کی وجہ سے رحلت کرجانے والے افراد صرف 43 ہی ہیں لیکن یہ سب کے سب عمر رسیدہ نہیں بلکہ ایک نو جوان ڈاکٹر اور ایک کم عمر نرس تو ریکارڈ پر ہیں جو اس بات کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ یہ وبا عمروں کا لحاظ کیے بغیر کسی کی بھی جان لے سکتی ہے یا کسی بھی عمر والے کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر وہ فرد جو جسمانی لحاظ سے کمزور ہو، کسی خطرناک بیماری کا پہلے سے شکار ہو یا عمر رسیدگی کی وجہ سے قوت مدافعت کھو چکا ہو، وہ موجودہ وبا کا کسی بھی وقت شکار ہو سکتا ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ پہلوان ٹائپ کے افراد، بہت زیادہ تن و مند دکھائی دینے والے یا جوان افراد کو دیکھ کر کورونا وائرس خوفزدہ ہو جائے گا، بالکل بھی درست نہیں۔

ممکن ہے کہ عمران خان صاحب نے یہ بات اس لئے کہی ہو کہ نوجوانوں کا حوصلہ بڑھائیں اور ان کو گھر سے باہر آکر مصیبت میں گھری انسانیت کی خدمت کے لئے ابھاریں۔ یہ بات تو درست ہے کہ اب تک اس وبا کی وجہ سے ہلاک ہونے والے ان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو یا تو کافی ضعیف العمر تھے یا پھر پہلے ہی کسی اور موذی بیماری کا شکار تھے۔ ہر دو صورت میں یہ وہ افراد تھے جو اپنی قوت مدافعت کھو چکے تھے یا کمزور کر چکے تھے اس لئے اس وبا میں جلد مبتلا ہو گئے اور ان کی ضعیفی ان کی ہلاکت کا سبب بنی لیکن وہ افراد بھی اس وبا کی ہلاکت خیزی سے محفوظ نہ رہ سکے جو جوان بھی تھے اور تندرست و توانا بھی۔ جس وبا نے تندرست توانا جنرلوں اور فوجی جوانوں کو بھی نہ بخشا ہو، اس کی جانب سے اس خوش فہمی میں رہنا کہ وہ نو جوانوں پر سایہ فگن رہی گی، کسی بھی لحاظ سے دانشمندانہ سوچ نہیں۔

ہر وہ بدن جس میں قوت مدافعت اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہو، وہ بے شک کئی خطرناک بیماریوں سے محفوط رہتا ہے اور اس کے بدن کے اندر موجود طاقتور محافظ کسی بھی بیماری کو جسم میں داخل ہوتے ہی ہلاک کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن یہ سمجھ لینا کہ ایسا فرد جو اپنے جسم کے باہر اور جسم کے اندر لاکھوں جراثیم یا وائرس کے لشکر رکھنے کے باوجود خود بیمار نہ ہو، وہ دوسروں کے لئے خود کش بمبار ثابت نہیں ہوگا یا اس کے جراثیم اور وائرس اسی کے ساتھ ہی چمٹے رہیں گے، نہ صرف غلط ہے بلکہ ایسا فرد دوسروں کے لئے ایک نادیدہ خطرہ ہے اور وہ دکھائی دینے والے بیمار انسان سے کہیں خطرناک اور چلتا پھرتا خود کش بمبار ہے۔

عمران خان صاحب کا نوجوانوں کو حوصلہ دلانا اور ان کو دکھی انسانیت کے لئے باہر نکل کر محنت مزدوری کی دعوت دینا، ان کو یہ اطمنان دلانا کہ جوانوں کو اس وبا سے کچھ نہیں ہوگا، ایک اچھا پیغام سہی لیکن یہ بات بھی جوانوں کو سمجھانا ضروری ہے کہ ایک تو وہ جہاں بھی جائیں، ہجوم میں جانے سے گریز کریں اور جب گھر لوٹیں تو اپنے جسم کے ساتھ چمٹے ممکنہ جراثیم یا وائرس سے نجات حاصل کرنے کے لئے جراثیم کش اسپرے ضرور کرلیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ گھر کے دیگر افراد سے فاصلہ رکھیں کیونکہ جو جراثیم یا وائرس ان کے بدن کے اندر موجود ہیں وہ بیشک ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہوں گے لیکن گھر کے کمزور اور بزرگ افراد کے لئے خطرہ ضرور بن جائیں گے۔

گھر سے باہر نکل کر گھر میں آنا بہر صورت خطرناک ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر بازار، ملوں، کار خانوں اور بس اسٹاپوں پر ایسے گیٹ ضرور نصب کرے جو جراثیم کش اسپرے کرتے ہوں ورنہ صرف یہ سمجھ لینا کہ جوان اس وبا سے محفوظ رہیں گے اور کسی اور کے لئے ایک مہلک ہتھیار ثابت نہیں ہوں گے ، نہایت خطرناک عمل ہوگا جو آبادیوں کی آبادیاں بھی نگل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments