بدبختی کے در پہ دستک


آزاد ریاست کی صحیح قدرو قمیت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جنھوں نے برما، فلسطین، کشمیر اور دلی کے فسادات کا بغور جائزہ لیا ہو جن میں املاک، دینی عقائد اور مقدس کتب کے ساتھ ساتھ بہنوں، ماؤں اور بیگمات کی عزت کو بھی تارتار کیا گیا۔ ظلم جبر اور بربریت کی وہ داستانیں رقم ہوئیں جنھیں سن کر درندے بھی نادم ہوں گے اور یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمیں تو ویسے ہی بدنام کیا جارہا ہے حضرت انسان وحشت اور درندگی میں ہمارے آبا و آجداد سے بھی دس قدم آگے ہے۔
فلسطین میں ماں کے روبرو معصوم بچی سے سکول بیگ چھین کر گولیوں سے چھلنی کرنا، کشمیر میں جواں سال بہنوں کی آبرو ریزی، برما میں زندہ انسانوں کو نذر آتش کرنا، دلی میں زندگی کی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ جھلستی انسانیت دیکھ کر بھی اگر ہمیں اپنی آزادی کی قدر محسوس نہیں ہوتی تو پھر شاید ہمیں کسی بڑے سانحہ کا انتظار ہے۔

حالیہ کرونا وائرس کی وبا نے تقریبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے جس سے نجات پانے کے لیے تمام دنیا کے سائنسدان دن رات محنت کر رہے ہیں امید ہے کہ بہت جلد کامیابی ہوگی۔ انشا اللہ

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں چند سوشل میڈیا گروپس اس وباء کو زائرین سے منسوب کرکے دشنام طرازی میں مصروف ہیں۔ متاثرین جن کے عزیز و اقارب ہسپتالوں میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں بجائے اس کے کہ ایک انسان کی حیثیت سے ان کی عیادت کی جاتی۔ ایسا طوفان بدتمیزی برپا کئے ہوئے ہیں جس کی پوری دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دوسری طرف زائرین کے دفاع میں مصروف سوشل میڈیا گروپس بھی کسی بھی حد سے گزرنے سے باز نہیں آتے ان کا پہلا نشانہ تبلیغی جماعت کے اس مرض سے متاثر افراد ہیں جو کہ نہایت افسوسناک بات ہے۔ اس دشمنی میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ شہید ڈاکٹر اسامہ ریاض کا تعلق بھی دوسری برادری سے تھا جس نے خدمت خلق میں جام شہادت نوش فر مایا۔

ایک اور دل سوز بحث بھی بد بختی کے دروازے پر زور زرو سے دستک دے رہی ہے کہ کچھ شر پسند عناصر پاک آرمی کے انتظام و انصرام کو ہدف تنقید بنارہے ہیں اگر کہیں غلطیاں ہیں تو متلعقہ ادارے سے رجوع کرنا چاہیے الحمدللہ ہماری اپنی آرمی ہے کوئی کرائے کی آرمی تو نہیں کہ ہم ان پہ کیچڑ اچھالیں۔

نیند اڑا دینے والے واقعات کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا گزشتہ ہفتے ایک معروف عالم دین نے ایک نجی ٹیلیویژن پر گفتگو کے بعد عالم انسانیت کے لئے دعائے خیر کی اسی دوران وزیر اعظم، مسلح افواج اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی درد دل کے ساتھ دعا کی۔ کچھ لوگوں کو حکومت کی تعریف اور دعا پسند نہ آئی تو اس قدر مخالفت میں اتر آئے کہ عالم دین کے ایمان پر ہی سوال اٹھانے لگے جب کہ عالم دین کے دفاع میں کمر بستہ گروپس نے ناقدین کے آباواجداد تک کے اعمال نامے تحریر کر دیے

آپ خود سوچئیں کسی آزاد اور مہذب ملک میں ممکن ہے کہ ایک فرقہ دوسرے کی پگڑی اچھالے؟ ایک گروپ ملک کی آرمی کو گالیاں دے، ایک مسلک دوسرے کے عالم دین کے ایمان پر سوال اٹھائے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی کچھ لوگ کفن کے ریٹ بڑھانے میں مصروف ہیں، کچھ دو نمبر سنیٹائیزز بنانے میں، بعض نے ماسک سونے کے بھاؤ لگا دیے کچھ نے کرونا کی جعلی ادویات کی سیل لگالی ہے ساتھ ہی جعلی عامل و پیر آن لائن دم کر رہے ہیں۔

کھوار زبان میں سانپ سے منسوب مشہور کہاوت ہے۔ ”مہ ماریک بووا مہ نیمینیان“
ترجمہ۔ سانپ کہتا ہے مجھے مار دیے جانے کا اتنا دکھ نہیں جتنا مار نے کے بعد میری لمبائی ناپنے کا ہے۔ لاک ڈاون کے دوران کچھ شہری مجبورا باہر نکلتے ہیں دوائی، کھاناپینے کی چیزیں یا کسی اور عذر سے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پیٹتے ہیں ساتھ فوٹو یا ووڈیو بناکر شوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیتے ہیں کیایہ اخلاق کے دائرے میں ہے؟ یا ملکی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے؟

اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ کچھ مخیر حضرات ایک وقت کا کھانا مستحق کو دے کر تصویر بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے بین الاقوامی بھکاری کی سند اس غریب کو عطا کرتے ہیں کیا یہ نیکی ہے؟ کیا یہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شیوہ ہے؟

حدیث مبارک ہے ”صدقہ ایسے دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے“ آپ خود سوچ لیں میں مفتی تو نہیں کہ فتوی دے سکوں لیکن اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کہ اس سے زیادہ کسی غریب کی غربت کا مذاق کیا اڑایا جائے گا۔ کچھ سوالات دماغ میں محو گردش ہیں۔ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہم باشعور ہیں؟ کیا ہم ذمہ دار شہری ہیں؟ کیا ہم وفادار ہیں؟ ہم آزاد نہیں، آوارہ ہیں، ہم باشعور نہیں، نہایت ہی غیر ذمہ دار شہری ہیں۔ ہمیں نشاة ثانیہ کی اشد ضرورت ہے۔
ہم آپس کے اختلافات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں اس دھرتی کے سالمیت کا ذرا بھی احساس نہیں۔ خدا نخواستہ یہ ملک نہ رہا تو ہمارا کیا ہوگا؟ اللہ وہ دن ہمیں نہ دکھائے جو فلسطینی، انڈین اور برما کے شہریوں کو روز دیکھنے پڑتے ہیں۔ خدارا جس طرح کرونا کے مریضوں کی نشاندہی کرکے قرنطینہ پہنچاتے ہو اس طرح اس ملک و امت کے دشمن جو کہ کمینہ وائرس کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں انہیں بھی قرنطینہ پہنچانے میں اداروں کی مدد کیجئے یاد رکھنا یہ کمینہ وائرس کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔

مرزا خان
Latest posts by مرزا خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments