کرونا وائرس اور نظریہ ارتقا


مملکت خداداد میں ارتقا کے نظریے کو عمومی طور پر مانا نہیں جاتا۔ ایک مذہبی معاشرہ ہونے کے ناتے نظریہ ارتقا کے حوالے سے معاشی، سماجی حتیٰ کہ سائنس کے شعبے سے وابستہ لوگ بھی مختلف ابہام کا شکار ہیں۔ اس سب کے درمیان، کرونا وائرس کے ابھار اور اس سے پڑنے والے سماجی اثرات کے مظہر کو سمجھنے کی خاطر، جیسا کہ پاکستان میں رسم ہے، ”سازشی عناصر“ کا سہارا ڈھونڈنا تو کرونا کے ابھرنے کو کسی عالمی سازش کا حصہ گردانا گیا۔

ایسا ہونا ناگزیر ہے، انسانی حس یہی ہے کہ کسی بھی واقعہ کو سمجھنے کے لیے انسان اپنی سوچ کے مطابق جستجو کرتا ہے۔ سائنسی علوم اور خاص کر جدلیات اور ارتقا کو سمجھے بغیر انسانی اذہان، عام حالات میں یک دم آنے والے اچھے یا برے تبدل کو سازش یا کسی گرینڈ پلان کا سہارا لے کر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ تو آئیے ذرا ایک اور زاویے پر نظر ڈالتے ہیں۔

سٹیفن مورس کے مطابق دنیا بھر میں موجود ریڑھ کی ہڈی رکھنے والی مخلوق پرایک ملین سے زیادہ وائرس اثر کرتے ہیں۔ صرف ممالیہ جانداروں پراثر انداز ہونے والے وائرسز کی تعداد تقریباً تین لاکھ بیس ہزار کے قریب ہے۔ اگر ہم مختلف مائکرو آرگنزم کو لاحق ہونے والے وائرسز کو شامل کریں تو یہ تعداد 10 کی پاور 31 تک جاپہنچتی ہے۔ جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے، عام انسان کے لیے اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ صرف یہی نہیں مختلف گمبھیر سماجی، حیاتیاتی اور ماحولیاتی مسائل آئے دن اپنے گہرے اثرات ہماری زندگیوں پر ڈالتے رہتے ہیں۔ جب ہم چیزوں کو ارتقا کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس سب میں نئے جانداروں کے جنم لینے اور ہائبرڈز (hybrids) کے پیدا ہونے کے کتنے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔

پچھلے کچھ عرصے میں چین کے اندر کئی وبائیں جیسا کہ سوائن فلو اورسارس پھوٹ چکی ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ ا: چین کی بڑھتی ہوئی آبادی جس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر پیداوار کرنے والے پولٹری، زرعی، کیٹل اور فشری فارمز وغیرہ درکار ہیں، 2۔ اس کی ضروریات کے مقابلے میں فوڈ، ہیلتھ، سیفٹی اور صفائی کی ناقص سٹینڈرڈائزیشن جس کے باعث کئی دفعہ یورپی ممالک نے چین سے برآمد شدہ سبزیوں یا گوشت پر وائرس کی موجودگی کی وجہ سے پابندی عائد کردی تھی۔

مزید یہ کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس وبا کے پھیلنے کے بعد سے مختلف ممالک کے لیبر قوانین، رہائش کے نظام، نیوٹریشنز کی کمی اور پبلک ہیلتھ کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں : چونکہ یہ حالات نئے وائرسز، اور پرانی وباؤں کو پھوٹنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رہے ہیں مثال کے طورپر خود ہمارے ملک کے شہر لاہور میں کرونا کی وبا سے پہلے، ٹائیفائیڈ کے ایک ڈرگ رسسٹنٹ سٹرین کی وبا پھیلی ہوئی تھی، لیکن نہ تو اس معاملے کی جانچ کی گئی اور نہ ہی کوئی خاص اعداد و شمار موجود ہیں جبکہ تا حال ہم پولیو سے بھی جان نہیں چھڑوا پائے۔

انسانی سماج کو درپیش مسائل بہت گمبھیر ہیں۔ ہمیں پڑھائے جانے والی تاریخ کے برعکس بڑی، بڑی تہذیبیں اور معاشرے جنگ و جدل سے زیادہ بیماریوں، ماحولیاتی تبدیلیوں، سیاسی اور معاشی مسائل کی نذر ہوئے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں کئی ممالک جنگی تباہی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ہنگامی منصوبے تشکیل دے چکے ہیں۔ کرونا وائرس کا ابھار ان کے سیاسی، سماجی، نظریاتی اور معاشی زاویے کے لیے ایک بڑا جھٹکا ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ اس نے ماردھاڑ، جنگ و جدل کی جنگجوطرز فکر، اورقدامت پرستی کی سوچ کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔

ایک عام انسان کو بیکٹیریا، وائرس، معاشی، ماحولیاتی اور سماجی بحرانوں سے درپیش خطرات کا مقابلہ گولے، بارود، نیوکلیر ہتھیار اور بڑی افواج سے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مجھے یا آپ کو بڑے ایف سولا، ٹینک، بندوقیں درکارہیں، ہمارے مسائل تو بنیادی ضروریات اور اچھے انفراسٹرکچر سے جڑے ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں ترقی اور ترقی پذیر ممالک میں صحت کی سہولیات، ڈاکٹرز اور ہیلتھ پروفیشنلز کی قلت کو عیاں کردیا ہے۔

پہلی دفعہ لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ شاید گبھرو جنگجو نوجوانوں کے بجائے معاشرے کو ڈاکٹروں کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے لیے سائنسی طرز اور اصولوں کی بنیاد پر سماجی اداروں کی ترقی اور مضبوطی درکار ہوتی ہے۔ تاکہ ہمارے پاس اچھے ڈاکٹرز، انجینیئرز، سائنسدان، پالیسی میکرز، قانون دان اور مطلوبہ صنعتیں موجود ہوں جو ان مسائل کا مقابلہ کرسکیں۔ ورنہ یہی ہوگا کہ وبا سے لڑنے کے لیے صف اول میں فوجی جوان بندوقیں لے کر کھڑے ہوں گے اورہمارے سیاسی رہنما مذہبی رہنماؤں کے قدموں میں پڑے پھونکوں کی التجا کر رہے ہوں گے۔ غیر سائنسی طرز فکر ہمیشہ تاریخ کے صفحوں میں بدترین اشکال میں پائی جاتی ہیں، کیونکہ ارتقا جاری رہنے کا عمل ہے اور جمود اس کا دشمن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments