مبارک ہو، اصل غریب اور مسکین مل گئے (مکمل کالم)


میں کچھ دنوں سے غریبوں کوتلاش کر رہا تھا، یعنی ایسے مفلسوں کو ڈھونڈ رہا تھا جو صحیح معنوں میں صدقات یا عطیات کے مستحق ہوں۔ آپ بھی کہیں گے کہ اِس ملک میں غریبوں کو تلاش کرنا بھلا کون سا مشکل کام ہے، چپے چپے پر غربت پھیلی ہے، آپ کسی بھی سڑک پر کھڑے ہو جائیں غریب آپ کے گرد جمگھٹا لگا لیں گے، جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی۔ لیکن آپ کو بھی پتا ہے کہ یہ لوگ غریب نہیں، پیشہ ور بھکار ی ہیں، ان کی مدد کرنا گویا گداگری کو فروغ دینا ہے، اسی لیے میں انہیں بھیک نہیں دیتا۔ میں تو اصل مستحقین کی تلاش میں تھا تاکہ ابتلا کے دور میں اُن کی مدد کی جا سکے۔

اب آپ یہ مت کہیے گا کہ جو لوگ آج کل جگہ جگہ دو وقت کا کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں وہ غریب ہیں، پلیز، گیو می اے بریک، یہ بھی میری زکوٰة کے حقدار نہیں، آپ پوچھیں گے کیوں، تو پہلی بات یہ ہے کہ یہ بھوکے نہیں مر رہے اور دوسرے اِن کو مفت روٹی کھانے کی عادت پڑ گئی ہے، سو جہاں لنگر دیکھتے ہیں ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نہیں جناب، کوئی خود دار غریب ایسے نہیں کرتا، مجھے تو اصلی غریب چاہئیں جن کی مدد کرنے سے مجھے ثواب بھی ہو اور اُس کا بھلا بھی ہو جائے، تھوڑے سے پیسے ہیں میرے پاس، وہ میں یونہی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اب خدارا یہ مت کہیے گا کہ میں خواہ مخواہ تاویلیں پیش کر رہا ہوں اور میرا کسی غریب کی مدد کا کوئی ارادہ نہیں۔

بالکل ایسی بات نہیں، میں ایک نیک نیت آدمی ہوں اور میرے اخلاص کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا لیں کہ بالآخر چند دن کی محنت شاقہ کے بعد میں نے غریب اور مستحق لوگ تلاش کر ہی لیے، پوری ذمہ داری کے ساتھ اب میں کہہ سکتا ہوں کہ ان سے زیادہ ہمارے عطیات اور صدقات کا کوئی حقدار نہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی غربت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں، اِن کی خود داری اور غیرت یہ بات گوارا نہیں کرتی کہ کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر سوال کیا جاوے، یہ کسی کے آگے اپنا پیٹ ننگا نہیں کرتے، کوئی چپکے سے اِن کی مدد کر دے تو یہ قبول کر لیتے ہیں اور دینے والے کے لیے اِن کے دل سے ایسی دعائیں نکلتی ہیں کہ آخرت کا تو پتا نہیں مگر دینے والے کی دنیا ضرور سنور جاتی ہیں۔

میں آپ لوگوں کے تجسس میں اب مزیداضافہ نہیں کروں گا بلکہ آپ سے ان تمام مساکین کی فہرست شئیر کروں گا تاکہ آپ بھی حسب توفیق ان کی مدد کریں اور مفت میں (نیکیاں) کمائیں۔ آپ کو شاید یہ بات عجیب لگے مگر دیگر غریبوں کے برعکس اِن مستحقین نے اپنی ایک ویب سائٹ بنا رکھی ہے جویقینا کسی اللہ کے کسی نیک بندے نے خدا ترسی کے جذبے کے تحت بنا دی ہوگی، اِس ویب سائٹ کا پتا میں آپ کے گوش گذار کر دیتا ہوں، آپ چُپ چاپ کسی تشہیر کے بغیر اِن مساکین کی مدد کر سکتے ہیں، لیکن خدارا ایسے مدد کیجیے گا کہ دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے۔ ویب سائٹ کا پتا ہے پاکستان شوگر مل ایسوسی ایشن!

جی ہاں، مجھے پتا ہے کہ اب آپ لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑ جائیں گے اور عجیب و غریب نوعیت کے اعتراضات سے میرا ناطقہ بند کر دیں گے کہ یہ کہاں کے غریب ہیں، یہ تو شوگر ملوں کے مالک ارب پتی لوگ ہیں، سرمایہ دار ہیں وغیرہ۔ اصل میں یہی آپ کی غلط فہمی ہے مگر اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، دراصل اِن غریبوں کے خلاف میڈیا پر اتنا پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ یہ بیچارے اپنے حواس ہی کھو بیٹھے ہیں، اسی لیے کبھی کبھار انہیں اخبارات کے صفحہ اول پر اپنا التجائیہ اشتہار شائع کروانا پڑتا ہے، یہ اشتہا ر اگر کوئی نرم دل والا شخص پڑھ لے تو شاید اُس کا کلیجہ ہی پھٹ جائے، اشتہار میں اُن تمام مظالم اور زیادتیوں کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے جو اِن شوگر مل مالکان پر ڈھائے جاتے ہیں، اِس کے باوجود اِن غریبوں کی کوئی نہیں سنتا اوریہ سر جھکائے سارا سال اپنی مل میں چکی پیستے ہیں، صرف اِس آس پر کہ شاید حکومت یا خدا کا کوئی نیک بندہ اِن کی مدد کر دے۔

کبھی کبھار کوئی غیبی امداد آ جاتی ہے اور انہیں دو چار ارب روپوں کی سبسڈی مل جاتی ہے جس سے اِن کی دال روٹی چل جاتی ہے، اور اگر کبھی ایسا نہ ہو تو بھی یہ صبر شکر کر کے سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا لیتے ہیں، اور جس دن یہ بھی نصیب نہ ہو اُس روز پیٹ پر کپڑا باندھ کے سو جاتے ہیں، اِس امید پر کہ اگلے روز کہیں نہ کہیں سے رزق ضرورملے گا۔ اب کیا اِن سے زیادہ کوئی مستحق ہو سکتا ہے؟

میں اگلے روز ٹی وی پروگرام میں دیکھ رہا تھا کہ ایک خود سر اینکر اپنے پروگرام میں غریب شوگر مل والے کو لتاڑ رہا تھا، حالانکہ شوگر مل کا مالک فقط یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا حکومت کی طرف سے انہیں جو چند روپوں کی سبسڈی ملتی ہے وہ کوئی منافع نہیں ہوتا بلکہ مشکل سے اُن کی لاگت پوری ہوتی ہے مگر اینکر تھا کہ مان کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ یقین کریں میرے تو آنسو نکل آئے، میں نے سوچا کہ اِن شوگر مل مالکان کی حسب توفیق مدد تو کروں گا مگر ساتھ ہی ”پرو بونو“ (فی سبیل اللہ) اِن مساکین کے لیے مشیر ابلاغیات (میڈیا ایڈوائزر) کا کام بھی کر وں گا۔ اصل میں یہ بیچارے اپنا مقدمہ صحیح انداز میں پیش نہیں کر پاتے، یہ ٹھہرے شریف، بھلے مانس لوگ، انہیں روٹی کمانے سے فرصت ملے تو یہ کچھ اور سوچیں، خالی پیٹ شیطان کا گھر ہوتا ہے !

خیر، میں آج آپ کو بتاتا ہوں کہ اِن غریب شوگر مل مالکان کی عطیات اور صدقات سے مدد کرنا عین عبادت کیوں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بیچارے ادھر ادھر سے پیسے اکٹھے کرتے ہیں، بنک سے بھاری سود پر قرض اٹھاتے ہیں اور مانگ تانگ کر شوگر مل لگاتے ہیں تاکہ اپنے جیسے باقی غربا کے لیے با عزت روزگار مہیا کر سکیں۔ پہلا ڈنڈا تو حکومت اِن کے سر پر یہ برساتی ہے کہ گنے کی قیمت مقرر کر دیتی ہے، اس کے بعد مختلف محکمے قطار اندر قطار اِن کی گوشمالی کرنے کے لیے آ دھمکتے ہیں، ان سب سے نمٹنے کے بعد جب یہ ملک کے عوام کو سستے داموں چینی فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان غریبوں کو معلوم پڑتا ہے کہ اب بھی کئی ہزار ٹن چینی گوداموں میں باقی ہے۔ یہاں پھر ان میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور یہ حکومت کو کہتے ہیں کہ جناب اگر یہ چینی آپ ایکسپورٹ کر نے کی اجازت دے دیں تو ملک میں ڈالر آ جائیں گے، اس دھرتی کا فائدہ ہو جائے گا۔ حکومت ان کی پیٹھ ٹھونک کر داد دیتی ہے، ان کے جذبے کی قدر کرتی ہے مگر یہ بھی نہیں چاہتی کہ اللہ کے اِن نیک بندوں کو کوئی تنگی ہو۔

یہاں باریک نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ اِن بھلے مانس شوگر مل والوں کی چینی بنانے پر جو لاگت آتی ہے وہ بین الاقوامی منڈی میں چینی کی قیمت سے زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ کچھ برگزیدہ اہلکار یہاں شوگر مل مالکان کی مدد کو پہنچتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ آپ لوگ اپنی لاگت سے کم قیمت پر چینی ایکسپورٹ کر دیں، خدا آپ کو اس کا اجر دے گا سو دے گا۔ ہم بھی چند ارب روپے آپ کی جھولی میں چُپ چاپ ڈال دیں گے تاکہ آپ کا گھاٹا پورا ہو جائے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ یعنی خواہ مخواہ یار لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شوگر مل مالکان آخر طلب سے زائد چینی پیدا کرتے ہی کیوں ہیں اور پھر حکومت کو کیوں کہتے ہیں کہ باقی ماندہ چینی ایکسپورٹ کرکے بدلے میں اربوں روپے کی سبسڈی دے دو! یعنی بھلے کا زمانہ ہی نہیں، ایک تو ایکسپورٹ کرو اوپر سے طعنے سنو۔ اور اِس احمقانہ بات کا بھلا کیا جواب ہو کہ اگر ملک میں چینی کی پیداوار طلب سے زیادہ ہوتی ہے تو پھر یہ شوگر مل مالکان کچھ عرصے بعد اپنی پیدا واری صلاحیت میں اضافہ کیوں کرتے ہیں ! یہ تو وہی بات ہوئی کہ آٹا گوندھتی ہلتی کیوں۔

صاحب، میں تو اِن بیہودہ الزامات کا جواب دینا نہیں چاہتا، میں تو فقط یہ جانتا ہوں کہ ملک کے جس طبقے کو اربوں روپوں کی براہ راست سبسڈی ہر سال ملتی ہو، بھلا اُس طبقے سے زیادہ غریب اور مستحق اور کون ہو سکتا ہے۔ میں تو اپنی زکوٰة اور عطیات انہیں بھیجنے لگا ہوں، آپ بھی اِس نیک کام میں دیر نہ کیجیے!

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments