جہانگیر ترین سے شاید غلطی ہوگئی ہے


جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
جب بولنے لگے تو ہمیں پر برس پڑے

یہ شعر موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین پر پورا اترتا ہے، عمران خان دو دہائیوں تک ٹکریں مارتے رہے مگر عام انتخابات میں ان کو نشست ایک ہی نصیب ہوتی تھی، عمران خان کو اپنی شہرت پر بہت ناز تھا اور ہے، شہرت اور سیاست مختلف چیزیں ہیں، دو دہائیوں کی ان کی سیاست نے ثابت کردیا کہ ان کو سیاست کی الف ب بھی معلوم نہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لئے جہانگیر ترین کو بھیجا جن کی حکمت عملی، کاوشوں اور پیسے کی وجہ سے آج عمران خان وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں۔

جہانگیرترین کو میں 1988 ءسے جانتا ہوں نہ صرف جانتا ہوں بلکہ ان کے اور ان کے بھائی عالمگیر کے ساتھ 5 سال کام کیا، ان دنوں ہم ملتان میں رہتے تھے، میرے والد مرحوم اعجاز کاظمی آرکیٹیکٹ تھے، کچہری چوک حلیم سکوائر میں آفس تھا، ایک روز پیپسی کولا کا سیلز افسر والد صاحب کے دفتر آیا اور کہا کہ ہمارے ایم ڈی جہانگیر ترین ہیں اور پیسی کولا کا سیلز آفس ڈیزائن کرانا ہے، آپ میٹنگ کا وقت دیں، خیر وقت طے ہوا، والد صاحب جیل روڈ پر واقع پیپسی کولا فیکٹری گئے پہلے جنرل مینجر الیاس پنوں سے ملاقات ہوئی، ان سے ریکوائرمنٹ لی، آفس آکر والد صاحب نے دو ڈیزائن بنائے اور جہانگیر ترین سے ملاقات میں دونوں ڈیزائن پیش کیے۔

ایک دو میٹنگز کے بعد ڈیزائن فائنل ہوگیا تو جہانگر ترین نے والد صاحب کی فیس منگوائی اور کیش دیتے ہوئے کہا کہ شاہ جی، سیلز آفس کی تعمیر بھی آپ ہی کریں گے اور اپنی نگرانی میں کرائیں گے، والد صاحب نے معذرت کی کہا کہ ترین صاحب میری بہت مصروفیت ہے میں صرف ڈیزائننگ کرتاہوں، کنسٹرکشن نہیں کرا سکتا جس پر جہانگیر ترین نے کہا کہ شاہ جی آپ بہت تجربہ کار ہیں یہ کام آپ ہی کریں گے تاکہ میری ٹینشن ختم ہو، آپ مہربانی کریں اور وقت نکالیں یہ کام کردیں پلیز۔

والد صاحب شام کو گھر آئے اور بتایا کہ یہ معاملہ ہے، ترین صاحب نے جتنی شفقت اور محبت سے مجھے کہا کہ میں پریشان ہوں کہ ان کو انکار کیسے کروں؟ سوچتا ہوں کسی ٹھیکیدار کو یہ کام دے دوں اور خود اس کی نگرانی کرلوں، میں ان دنوں بی اے کی تیاری کررہا تھا، بچپن سے ہی ایڈونچر اور تھرل کا بہت شوق تھا اور فلمیں بھی اسی قسم کی دیکھتا تھا یا یوں کہہ لیں کہ پنگے لینے کا شوق تھا، میں نے کہا کہ کتنا وقت لگے گا اس کام کو تو انہوں نے بتایا کہ 6 سے 7 ماہ لگ جائیں گے، میں نے کہا کہ اگر انہوں نے اتنا اعتماد کیا ہے تو پھر آپ ہی کام کریں، کنسٹرکشن کا کام میں کرلوں گا، پیپروں میں ابھی وقت ہے۔

والد صاحب کو میری پڑھائی کی فکر تھی اور وہ جہانگیر ترین کو کورا جواب بھی نہیں دینا چاہتے تھے، انہوں نے ایک حل نکالا کہ میں ایڈوانس اتنا زیادہ مانگ لیتا ہوں کہ وہ نہیں دیں گے اور میں بھی سرخرو ہو جاؤں گا، میں نے والد صاحب سے کہا کہ آپ مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں، اگلے روز میں اور والد صاحب جہانگیر ترین سے ملے، والد صاحب نے کہا کہ خان صاحب میں آپ کو بہت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھ پر اعتماد کیا مگر میری مجبوری ہے کہ میں نے نیا گھر بنایا ہے اور اس وقت میرے پاس پیسے نہیں ہیں، آپ مجھے دو لاکھ روپے ایڈوانس دیدیں تو میں کام کرسکتا ہوں۔ 1988 میں ڈیڑھ لاکھ روپے میں ایک کنال کا پلاٹ مل جاتا تھا۔

اب ہم اس جواب کے انتظار میں تھے کہ ترین صاحب انکار کردیں گے اور ہم باعزت گھر آجائیں گے، والد صاحب کی ڈیمانڈ سن کر ترین صاحب نے انٹرکام اٹھایا اور اکاؤنٹنٹ سے کہا کہ 2 لاکھ روپے کیش لائیں ابھی، 10 منٹ بعد اکاؤنٹنٹ سو، سو والے نوٹوں کی 20 کاپیاں لے کر کمرے میں داخل ہوا اور ترین صاحب کو 2 لاکھ روپے دیے، ترین صاحب نے وہ نوٹ والد صاحب کے حوالے کردیے اور کہا شاہ جی کام کب شروع کررہے ہیں، اب والد صاحب کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور انہوں نے پیسے لے لئے۔

اکاؤنٹنٹ پیسوں کے وصولی کی رسید لینے کے لئے آگے بڑھا تو ترین صاحب نے روک دیا، کوئی ضرورت نہیں، تم معاہدہ تیار کروں اس میں لکھ دینا اور والد صاحب سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ گڈلک شاہ جی۔

معاملہ طے ہوا تو ترین صاحب نے کافی کا آرڈر دیدیا اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت شروع ہوگئی، اتنی دیر میں کافی آگئی، میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور خاموش تھا، اس وقت میری عمر 20 سال تھی، کافی کی چسکی لیتے ہوئے میں نے کہا کہ ترین صاحب، آپ سے ایک بات پوچھنی ہے، ترین صاحب بولے پوچھیں چھوٹے شاہ جی۔ میں نے کہا کہ آپ کی والد صاحب سے صرف تین ملاقاتیں ہوئی ہیں، آپ ہمارے بارے میں زیادہ جانتے بھی نہیں اور آپ نے 2 لاکھ روپے دے دیے ہیں اگر ہم یہ پیسے لے کر بھاگ جائیں تو؟

جہانگیرترین نے اپنی کرسی پر میری طرف جھکتے ہوئے کہا ”چھوٹے شاہ جی، تین ملاقاتوں میں اگر میں یہ نہیں پہچان سکا کہ آپ فراڈ ہیں یا جینوئن آدمی ہیں (اپنی کرسی پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے ) تو مجھے اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے“
مگر آج مجھے نجانے کیوں محسوس ہورہا ہے کہ جہانگیرترین نے عمران خان سے دوستی کرنے میں کچھ غلطی کرلی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments