جب اوجڑی کیمپ کے سانحے نے جونیجو کو واپس گھر بھیجا


10 اپریل 1988 نو بج کر پینتالیس منٹ پر معمول کی صبح تھی افق سے سورج طلوع ضرور ہوا مگر وہ ابھی پوری آب و تاب سے چمکا نہیں تھا مری روڈ پر گاڑیاں رواں دواں تھی دفاتر میں افسر ان چائے کی چسکیاں لے رہے تھے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہلا پریڈ اختتامی کے مراحل میں تھا تاجر اپنی دکانیں کھول کر مال کو طے شدہ جگہ پر لگا رہے تھے کہ اچانک جڑواں شہر دھماکوں سے لرز اٹھے، شور اتنا زیادہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، دھویں اور غبار کے بادل نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لگاتار دھماکوں کی گونج سے جڑواں شہروں کے باسیوں نے سمجھا پڑوسی دیش ہندوستان نے حملہ کر دیا۔

دھماکوں نے لوگوں کے اوسان خطا کر دیے اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا جس سے جڑواں شہروں کے درودیوار لرز اٹھے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، اوجڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو سے میزائل اڑ اڑ کر گلیوں، محلوں میں تباہی پھیلا رہے تھے، موت چاروں اور رقص کناں تھی، ضعیف زن و مرد، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھٹک رہے تھے، لگ بھگ ایک گھنٹہ تک آسمان آتش و آہن کی بارش برساتا رہا۔

ایک گھنٹے بعد میزائل پھٹنا بند ہوئے مگر ہر سو تباہی کی داستان چھوڑ گئے، ریڈیو نے بارہ بجے کی خبروں میں بتایا کہ شہر میں اسلحہ ڈپو میں آگ لگنے سے کچھ اسلحہ دھماکے سے پھٹ گیا مگر ”گبھرانے کی کوئی بات نہیں حالات مکمل کنٹرول میں آ گئے ہیں“ ۔

اس حادثے میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 103 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ گھائل ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ 1500 سو کے قریب تھی۔ آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد محترم خاقان عباسی بھی مری سے راولپنڈی واپس آتے ہوئے میزائل لگنے سے جاں بحق ہو گئے تھے۔

جس وقت اوجڑی کیمپ آتش و آہن برسا رہا تھا، وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو سندھ اور صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کویت کے دورہ پر تھے۔ دونوں نے اپنی مصروفیات ترک کر کے اسلام آباد کی راہ لی۔ جنرل ضیا نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ہم بڑا کام کر رہے تھے اور اس کی سزا ہمیں ملنا تھی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی، ساتھ ہی پانچ وزرا پر مشتمل ایک اور کمیٹی کی تشکیل کی جس نے جنرل کی دی گئی رپورٹ کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کر کے وزیراعظم کو پیش کرنا تھی۔

معروف صحافی اظہر سہیل اپنی کتاب ”سندھڑی سے اوجڑی کیمپ تک“ میں لکھتے ہیں ”مذکورہ ڈپو حساس ادارے کے اس شعبہ کی نگرانی میں چل رہا تھا جو جہاد افغانستان اور افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کے ایما پر معاملات کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔“ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس اسلحہ خانہ میں اس انداز میں بے احتیاطی کے ساتھ اسلحہ جمع کیا گیا تھا جیسے لکڑی کے ٹال پر فالتو لکڑیاں بکھری پڑی ہوں۔ بنیادی طور پر اس ڈپو میں تین اسلحہ خانے تھے۔ ان میں صرف راکٹ، پراجیکٹائل اور میزائل ہی موجود نہیں بلکہ بعض معلومات کے مطابق فاسفورس بم بھی تھے“ ۔

اس افسوس ناک واقعہ کو گزرے لگ بھگ 33 سال ہونے کو ہوئے۔ اس وقت کے وزیراعظم جونیجو نے حقائق جاننے کے لیے جس کمیٹی کی تشکیل کی تھی اس نے مقررہ وقت پر رپورٹ پیش کی تھی۔ رپورٹ عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی اسے دبا دیا گیا۔

اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ ”جنرل عمران اللہ جب وزارتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو رانا نعیم محمود جو دفاع کے وزیر مملکت اور کمیٹی کے رکن تھے انھوں نے جنرل سے تین سوال کیے۔ پہلا سوال اس کیمپ کا قیام کس کی ذمہ داری تھی۔ جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی۔ دوسرا سوال جنرل سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل اختر عبدالرحمان جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، کیا کیمپ بنانے کا فیصلہ ان کا تن تنہا تھا یا کسی سے منظوری لی گئی۔ جنرل نے جواب دیا کہ متعلقہ افسر کسی سے صلاح مشورہ کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔“

”رانا نعیم محمود نے جنرل سے سوال و جواب کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس میں لکھا کہ کیمپ کا قیام اور اس کا انتظام مکمل طور پر آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کی ذمہ داری تھا اور ہے اس لیے سفارش کی جاتی ہے کہ سابق ڈی جی جنرل اختر عبدالرحمان اور موجودہ جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس رپورٹ پر قاضی عابد، ابراہیم بلوچ اور رانا نعیم محمود تینوں نے دستخط کیے اور رپورٹ وزیراعظم کے حوالے کر دی۔ جونیجو چاہتے تھے کہ رپورٹ حسب وعدہ قوم کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کی جائی گی بلکہ اس کی روشنی میں صدرمملکت جنرل ضیا الحق کو سفارش کی جائے گی کہ وہ جنرل اختر عبدالرحمان کے خلاف کارروائی کریں۔ جنرل حمید گل کے خلاف جونیجو خود کارروائی کرنے پر تیار ہو گئے تھے“

رپورٹس حاصل کرنے کے بعد جونیجو صاحب کوریا اور دیگر ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے انھیں اپنی منتخب حیثیت پر اتنا ناز اور یقین تھا کہ انھوں نے دورے پر روانہ ہونے سے قبل رپورٹس صدر مملکت کے سامنے رکھ دی۔ جب صدر مملکت نے پوچھا یہ کیا ہے تو وزیراعظم صاحب نے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ ”سائیں یہ کمیٹی کی رپورٹس ہیں، آپ ان پر غور کریں وطن واپسی پر آپ کی مشاورت سے فیصلہ کروں گا۔“ جنرل ضیا الحق نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان رفقا کے خلاف کارروائی کریں جو ان کے اقتدار کی طوالت کا سبب رہے یوں سانحہ اوجڑی نے وزیراعظم محمد خان کو اقتدار سے نکال کر سندھڑی جانے پر مجبور کر دیا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments