کرونا کی آفت اور عورتوں پر گھریلو تشدد میں اضافہ


لاک ڈاؤن سے نبرد آزما ھونا ایک مشکل ذہنی آزمائش ہے۔ ایسی آزمائش جو بظاہر تو جنس کی قید سے آزاد ہے مگر معاشرتی رویوں میں اس کے اثرات عورتوں اور مردوں کے لئے مختلف شکل لئے ہوئے ہیں۔ عموماً مرد گھر کے کفیل سمجھے جاتے ہیں اور گھر کا کام کرنے والی خواتین یہاں بھی خود بخود دوسرے درجے پر دھکیل۔ دی جاتی ہیں۔ جہاں ان کی روزگار کی تگ و دو بھی کم مایہ ٹھہرتی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل بھی کسی کھاتے میں جگہ نہیں بنا پاتے۔

اس کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کاج کا بوجھ بھی فقط ان کے حصے میں۔ گھر اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہتری کے درجہ کی لکیر عموماً ان کی پہنچ سے باہر رہتی ہے کیونکہ یہ منزل یا تو عورتوں کے لئے مستقل طور پر رسائی سے باہر رکھی جاتی ہے۔ دوسری صورت میں مردوں کی طرح سماجی تعلقات کو وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہو کر اکاموڈیٹ نہ کرنے کی پاداش مین عورتوں کی ترقی پر نامناسب ہونے کی مہر لگا دی جاتی ہے۔

  • ہمارے قومی لیبر فورس سروے کے مطابق فقط بیس فیصد خواتین منفعت بخش کام کرتی ہیں اور اس میں نہ گھریلو کام شامل ہے اور نہ وہ خواتین جو گھر سے کام کرتی ہیں یا گھر گھر جا کے کام کرتی ہیں۔ کرونا کی وجہ سے معاشی بدحالی عروج پر ہے۔ پکی نوکری والی عورتیں تو پھر بھی نوکری قائم رہنے کی توقع رکھ سکتی ہیں مگر گھر سے کام کرنے والے افراد (جن میں بیوٹی پارلر، ریستوران یا گھر سے فروزن کھانے کا کام کرنے والی خواتین کی اکثریت ہے) ۔ کی روزی کا ذریعہ ختم ہے۔
  • ان خواتین کی آمدن گھر چلانے کے علاوہ ان کے ساتھ گھر والوں کے بہتر رویوں کی ضامن بھی تہیں خواہ وہ بھائی کا ہو، شوھر یا سسرال کا۔ سماجی طور پر ہم مشترکہ فیملی سسٹم پر زور دیتے ہیں کہ یہ خاندانوں کو جوڑ کے رکھتا ہے جو ہماری مشرقی اقدار کا طرہ امتیاز بھی بتایا جاتا ہے مگر اس میں آسانیوں کے ساتھ ساتھ کچھ علتیں بھی ہیں۔ مثلاً خواتین پر ذہنی اور جسمانی گھریلو تشدد۔ اس برائی بلکہ جرم پر خاموشی کی چادر تان کر اسے قابل قبول بنایا جاتا ہے۔ جسمانی تشدد میں تو پھر بھی کچھ خاندانوں میں احتیاط برت لی جاتی ہے مگر ذہنی اذیت کو کسی تشدد کے زمرے میں نہیں گنا جاتا۔ اور یوں یہ ایک پوشیدہ ناسور کی طرح عورت کو اندر سے کھوکھلا کرتا رکھتا اور اس کی عزت نفس کا ہر روز جنازہ نکالتا ہے۔
  • گھر سے باہر جاکر کام کرنے والی خواتین کام پر جا کر کچھ دیر کو اس اذیت سے نجات پا لیتی ہیں اور گھریلو خواتین تب جب ان کا شوہر/ باپ / بھائی کام پر جائیں۔ کرونا کے نامساعد حالات میں یہ بریک بھی ختم ھو گئی ہے۔ اور اس طرح ذہنی اور گھریلو تشدد میں اضافہ بھی ہو گیا ہے۔ طنز کے نشتر کوئی بھی موقع نہیں جانے دے رہے خواہ وہ سکائپ کال کے درمیان کسی بچے کی آواز آنے پر تربیت کے فقدان کے زہر میں بھیگے ھوں۔ یا سالن کا ذائقہ مروجہ سسرالی معیار پر اترنے سے قاصر ہونے پر اسکے ماں باپ کی شان میں بے ہودہ گوئی سے لے کر کام پر جانے کی آڑ میں اس کی مفروضہ آوارگی پر طعنے بازی کی شکل لئے ہوں
  • ان حالات میں مرد کی نوکری کا ختم ھونا، کام نہ ملنا اور اس کی سب معاشی مشکلات کے دباؤ سے نجات کی مشق گھر کی عورت ہے۔ اس رویہ کو آج بھی نارمل گردانا جا رھا ہے کہ اب اپنا ذہنی تناؤ بیوی پر نہ نکالے تو کس سے کہے۔ کوئی نہ اس کا ھاتھ روک رھا ہے نہ زبان۔ خاندان اور بیوی کی خاموشی ایک دفعہ پھر ان رویوں کو قابل قبول بنا رہے ہیں۔ مگر یہ 2005 تو نہیں جب زلزلہ آیا یا 2008 جب گھر بار چھوڑ کے کیمپوں میں رہنا پڑا اور خواتین پر تشدد کے واقعات بڑھ گئے۔ ھم نے اپنے سماجی رویوں پر بہت کام کر کے اس پر آواز اٹھانا اور اٹھے ہوئے ہاتھ کو روکنے کو قابل عزت بنایا ہے تو ھم دہائیوں کی اس محنت کو ضائع نہیں کر سکتے۔
  • انسانی حقوق کی وزارت نے کل ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان خواتین پر کورونا کا اثر ہے- یہ رپورٹ بھی وبا کے دور میں عورتوں پر بڑھتے جسمانی، ذہنی، جنسی اور گھریلو تشدد کے خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے لئے قانونی اور نفسیاتی مدد کے ذرائع بھی مسدود ہیں۔ ایسے میں ہمیں خود ایسے رویوں کے لئے مزاحمت کی آواز اٹھانا ہو گی۔ اگر ھم نے ان رویوں کی نفی نہ کی، ان کی مذمت نہ کی تو وبا کے نتیجے میں سامنے آنے والے نامساعد حالات، خصوصاً معاشی مشکلات کا نتجہ گھر کی عورت پر تشدد میں اضافے کی صورت میں نکلے گا، ہم دہائیوں پیچھے چلے جائیں گے اور حاصل سفر صفر قرار پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments