مختاریا چپ رہ! میمو گیٹ کھلا ہے اور نہ ڈان لیک ہوئی ہے


دیواروں کے کان ہمیشہ سے رہے ہیں، اب یہ کان حساس بھی ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کسی کو دیواروں میں منہ نظر آئیں اور آئینہ خانہ عبرت سرائے دہر بن جائے، بتا دینا چاہیے کہ درویش کو ندیم افضل چن اچھے لگتے ہیں۔ ان کی سیاست سے غرض نہیں اور ذاتی تعلق بھی نہیں۔ دو چار بار ادھر ادھر کسی مجلس میں دیکھا اور سنا۔ ان کی بے ساختگی اچھی لگی اور وہ ٹھیٹھ دیہاتی دانش جو کتابی اصول کی بجائے بقا اور نمو کی زمینی حقیقتوں سے کشید کی جاتی ہے۔ اب دیکھیے، اپنے دوست مختار کو کس بلاغت سے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی سمجھائی۔ پورا ملک ندیم افضل کی شیریں بیانی پر جھوم اٹھا۔ یہ شور قیامت ابھی تھما نہیں تھا کہ حامد میر سے گفتگو میں ندیم صاحب نے اعلان کر دیا کہ چینی اور آٹے کے بحران پر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ لیک ہوئی ہے۔ اگلی صبح وزیر اعظم نے کابینہ کو بتایا کہ ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ ان کے حکم پر جاری ہوئی ہے۔ وزیر اعظم رپورٹ جاری کرنے کی اطلاع دیتے ہیں اور ان کے ترجمان کہتے ہیں کہ رپورٹ لیک ہوئی ہے۔ لیک ہونے کے قافیے اور کنائے سب ایسے ہیں کہ استغفراللہ! ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں! وزیر اعظم اور ان کے ترجمان کی یگانگت سے اقبال یاد آ گئے، مگر یہ حرف شیریں ترجماں میرا ہے یا تیرا؟ بات یہ ہے کہ سرکاری رپورٹ کے مجاز ادارے سے جاری ہونے کے اصول و ضوابط ہیں۔ وزیر اعظم نے انکوائری کمیٹی قائم کی ہے تو یہ رپورٹ کیبنٹ ڈویژن یا وزیر اعظم کے دفتر سے باضابطہ طور پر آنی چاہیے تھی۔ چند صحافیوں کو ذاتی طور پر رپورٹ مہیا کرنا یا کابینہ کے اجلاس میں اس کا انکشاف تو اجرا نہیں، جریان کی چغلی کھاتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی رپورٹ لیک ہونے کا دعویٰ کیا۔ ادھر جہانگیر ترین اس قضیے میں اعظم خان کے دست رسا کی کارفرمائی دیکھتے ہیں۔ پتیاں روتی ہیں، سر پیٹتی ہیں….

ضابطے کی موشگافیوں سے قطع نظر زمینی حقائق دیکھیے۔ گزشتہ برس گنے کے کاشت کاروں کی دہائی دے کر چینی برآمد کرنے کی تجویز صوبوں کی طرف سے آئی۔ شوگر ایڈوائزری بورڈ نے رزاق داؤد کی صدارت میں اس پر صاد کیا۔ تجویز ای سی سی میں پہنچی جہاں حفیظ شیخ صدر نشین تھے، یہاں سے منظوری مل گئی تو وزیر اعظم کی رہنمائی میں کابینہ نے برآمد کی اجازت دیتے ہوئے صوبوں کو سبسڈی کا اختیار سونپ دیا۔ سندھ میں سبسڈی کے نام پر ایک روپیہ جاری نہیں ہوا۔ پنجاب میں تین ارب روپے ہدیہ کئے گئے۔ اس کا معتدبہ حصہ پیاروں کی کھچڑی میں گیا۔ اس دوران چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا۔ کیوں ہوا؟ یہ قصہ الگ ہے۔ کاغذی کارروائی مکمل ہے۔ رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ 25 اپریل کی فرانزک رپورٹ سے کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ عثمان بزدار، رزاق داؤد، حفیظ شیخ اور خسرو بختیار اپنے اپنے برج میں ہیں۔ مونس الہٰی بدستور چھاؤں میں ہیں۔ انکوائری رپورٹ سرکاری اجازت سے مستفید ہونے والوں کی نشاندہی کرتی ہے، اجازت دینے والوں سے حجاب حائل ہے۔ البتہ جہانگیر ترین کی سیاسی کھپریل اقتدار کے منہ زور ہاتھی کی ٹکر برداشت نہیں کر سکی۔ سپریم کورٹ نے دسمبر 2017 میں سیاسی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا تھا، عصائے سلیمانی کو دیمک وہاں سے لاحق ہوئی۔ زرعی ٹاسک فورس نے سیاسی رسوخ کا بھرم بنا رکھا تھا، فلک کی گردش کو یہ بھی منظور نہ ہوا۔ 28 جولائی 2017 کی سہ پہر جب جہانگیر ترین سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر ہاتھ باندھ کر رب ذوالجلال کا شکر ادا کر رہے تھے تو نواز شریف اپنے رفیقوں کو بتا رہے تھے کہ شاہ والی سے آگے کوئی تھانہ نہیں۔ نواز شریف تو ایک مانوس پنجابی حکایت کی مدد سے اپنا سیاسی مآل بیان کر رہے تھے۔ کسے خبر تھی کہ ضلع رحیم یار خان میں شاہ والی تھانہ ہی نہیں، موضع جمال دین والی بھی واقع ہے۔

جہانگیر ترین کی سیاست کا چراغ بجھنے سے پہلے کچھ چنگاریاں تو چھوڑے گا۔ جہانگیر ترین نے پہلی خبر یہ دی کہ 2013 کے عام انتخابات میں چھوٹی موٹی بے ضابطیوں کو دھاندلی کا فتیلہ باندھ کر ڈی چوک کا میلہ سجایا گیا تھا۔ کوئی بھاگ کے طاہر القادری صاحب کو خبر دے آئے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے پیش و پس کی پرپیچ دستار سربازار کھل رہی ہے۔ ایک بات جہانگیر ترین نے دلچسپ کہی کہ عمران خان کو انہوں نے سمجھایا تھا کہ سیاسی خانوادوں کو قافلے میں شریک کئے بغیر وہ وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔ گویا عمران خان نے اسٹیٹس کو سے سمجھوتہ کر کے وزارت عظمیٰ کی طرف سفر شروع کیا۔ یہ تو خان صاحب کے ویژن پر بہت بڑا حملہ ہے۔ ایک سوال کا جواب لیکن ابھی باقی ہے۔ تسلیم کہ عمران خان پرانی سیاست گری سے نالاں تھے لیکن پرانے سیاسی کھلاڑیوں کو کس نے عمران خان کی بیعت سے روک رکھا تھا۔ عمران خان تو 1996 سے تیسری سیاسی قوت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ 2011 کے موسم خزاں میں ایسا کیا معجزہ سرزد ہوا کہ پیپلز پارٹی کے شاہ محمود قریشی، مسلم لیگ کے جاوید ہاشمی اور جمیعت علمائے اسلام کے اعظم سواتی سمیت ایک لشکر جرار سر جھکائے حلقہ بگوش ہو گیا۔ کیا یاد دلایا جائے کہ جولائی 2011 ہی میں جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کی خبر پھیل چکی تھی نیز یہ کہ تخت سلیمانی سے جہانگیر ترین کو مسٹر کلین کا خطاب دیا گیا تھا؟ 1996 سے 2011 کے بیچ دو پڑاؤ اہم ہیں۔ ایک مئی 2006 کا میثاق جمہوریت اور دوسرا اپریل 2010 کی اٹھارہویں آئینی ترمیم۔ جہانگیر ترین بھی کچھ دیکھ کر تحریک انصاف میں آئے تھے۔ اگرچہ یہ دیکھنا بھول گئے تھے کہ میمو گیٹ کا موسم کیسے ڈان لیکس کی خبر لاتا ہے۔ جہانگیر ترین کی ہزیمت تو سمپورن راگ کی استھائی بھی نہیں، استاد ازل نے مہارت سے جگہ نکالی ہے۔ ندیم افضل چن کے مختارے کو خبر ہو کہ ابھی میموگیٹ نہیں کھلا، ڈان لیک نہیں ہوئی، حکومت اپنی ہی صفوں سے اٹھنے والے اسکینڈل کی دھول اس لئے اڑا رہی ہے کہ جنگل کی آگ کا دھواں چھپایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments