کیا آپ جنوں، بھوتوں اور ذہنی مریضوں کے رشتے سے واقف ہیں؟


ڈاکٹر خالد سہیل۔ عبدالستار

عبدالستار کا خط

پیارے طبیب آداب

کچھ عرصہ پہلے ایک ذہنی مریض کے حوالہ سے میں نے آپ کو ایک خط لکھا تھا اور اس مریض کی پراسرار بیماری آپ سے شیئر کی تھی۔ یہ مریض انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزشتہ دنوں 4 اپریل 2020 بروز ہفتہ اپنی اس پراسرار بیماری کے ساتھ منوں مٹی تلے جاسویا اور اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑگیا جن کا سرا شاید ہی ڈھونڈا جا سکے۔ یہ مریض تقریباً 30 سال سے ایک پراسرار ذہنی بیماری کا شکار تھا۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں کسی بھی قسم کی میڈیسن نہیں کھائی۔ اس کو بہت سارے روحانی بابوں کے پاس بھی لے جایا گیا مگر

؎ درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

یہ مریض اپنے رشتہ داروں ملنے والوں اور احباب کو یہ بتاتے ہوئے مرگیا کہ میرے اندر جن اور بھوت پریت رہتے ہیں جو کہ مجھے کھانے اور سونے بھی نہیں دیتے اور مجھے مسلسل تنگ کرتے رہتے ہیں۔ تقریباً کچھ عرصہ سے اس نے کھانا پینا بالکل ہی چھوڑ دیا تھا حتٰی کہ گزشتہ کئی ماہ سے پانی کا ایک قطرہ بھی اپنے حلق سے نہیں اتارا تھا جب کبھی ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی کوشش کی جاتی تو وہ خود مارنے اور نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتا۔

اس مریض کا ساری عمر اسی بات پر اصرار رہا کہ اس کا علاج صرف روحانی بابے ہی کر سکتے ہیں۔ پیارے طبیب، اسے روحانیت کے ان دکانداروں نے بھی خوب لوٹا مگر کچھ نہ ہو سکا۔ مرنے سے تین دن پہلے میں نے اس مریض کی حالت دیکھی تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا اور وہ اس حالت میں بھی یہی بات کہہ رہا تھا کہ جن اور بھوت پریت میرا گلا گھونٹ رہے ہیں حتٰی کہ کیڑوں کی طرح میری رگوں میں دوڑ رہے ہیں آخر کار یہ مریض اس پراسرار بیماری کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔

پیارے طبیب یہ ذہنی بیماری اتنی پراسرار کیوں ہوتی ہے اور انسان کو اتنا بے بس کیوں کر دیتی ہے کیا ذہنی پراسراریت کو جانچنے کا بھی کوئی پیمانہ ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

عبدالستار صاحب!
سب سے پہلے میں آپ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ ایک سال پہلے آپ، ہم سب، کے کالموں کے صرف قاری تھے اور اب ایک قاری بھی ہیں اور لکھاری بھی۔ آپ کی تحریروں میں وقت کے ساتھ ساتھ گہرائی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ زندگی کے سنجیدہ مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں اور آپ کا موجودہ خط اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

آپ نے اپنے ہمسائے کی جس ذہنی بیماری کا ذکر کیا ہے ہم نفسیات کی زبان میں اسے سکزوفرینیا یا شائزوفرینیا کہتے ہیں۔ یہ بیماری ذہنی بیماریوں میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور پراسرار بیماری ہے۔ میں اس کالم میں اس بیماری کی چند علامات کا اختصار سے ذکر کرنا چاہوں گا

1۔ hallucinations
مریض کو اکثر ایسی غیبی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں جو اس کے ساتھ رہنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کو سنائی نہیں دیتیں۔ یہ آوازیں مریض سے عجیب و غریب باتیں کرتی ہیں جنہیں مریض سچ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ آوازیں خود اس کے اپنے لاشعور کی اختراع ہیں۔

2۔ delusions
مریض کو مختلف قسم کے توہمات ہو جاتے ہیں۔

بعض مریض پیرانائڈ ہو جاتے ہیں اور سمجھتے کہ کوئی دوست یا رشتہ دار یا پولیس افسر اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے یا اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔ بعض مریض یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اندر جن یا بھوت حلول کر گئے ہیں اور وہ ان سے عجیب و غریب کام کرواتے ہیں۔ بعض مریض یہ باور کرنے لگتے ہیں کہ ان کے جسم اور ذہن پر شیطان نے قبضہ کر لیا ہے اور اب وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔

3۔ thought disorder
ایسے مریض منطقی بات نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی داخلی دنیا میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ خارجی دنیا سے ناتا توڑ دیتے ہیں۔ ایسے مریض بے ربط باتیں کرتے ہیں اور بعض دفعہ بڑبڑاتے رہتے ہیں اور خیالی لوگوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔

4۔ inappropriate behaviour
ایسے لوگ اپنے کپڑوں اور کھانوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں نہ کپڑے بدلتے ہیں نہ وقت پر کھانا کھاتے ہیں نہ ہی اپنی صفائی اور صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ بد سے بدتر ہونے لگتا ہے۔

ماضی کا ایک وہ دور تھا جب لوگ مافوق الفطرت ہستیوں پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جسمانی اور ذہنی بیماریان ان کے گناہوں کی سزا ہیں اور خدا ان پر عذاب نازل کر رہا ہے۔ وہ ذہنی بیماریوں کو روحانی بیماریاں سمجھتے تھے اور ان کے علاج کے لیے کسی پیر فقیر کے پاس جا کر گنڈا تعویز کراتے تھے۔

پچھلی صدی میں سائنسدانوں اور ماہرینِ نفسیات نے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ ایسے مریضوں کی بیماری کا تعلق حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی عوامل سے ہے اور اس کا ادویات، تھراپی اور تعلیم سے علاج کیا جا سکتا ہے۔ ساری دنیا میں لاکھوں مریض اب صحتیاب ہو گئے ہیں اور ایک صحتمند اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

نفسیات کی ترقی سے ہمارا رویہ روحانی اور ذہنی بیماریوں کے بارے میں بدلا ہے۔ مذہبی دور میں سائیکی کا ترجمہ روح کیا جاتا تھا۔ ایک سو سال بعد اب سائیکی کا ترجمہ روح نہیں ذہن اور مائنڈ کیا جاتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات جانتے ہیں کہ ذہنی بیماریاں موروثی ہیں جو والدین سے بچوں کو منتقل ہو سکتی ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جوں جوں تحقیق ہو رہی ہے ہم زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کر سکتے ہیں تا کہ وہ معاشرے میں ایک باعزت زندگی گزار سکیں۔

عبدالستار صاحب!

یہ بدقسمتی ہے آپ کا ہمسایہ نہ خود ہسپتال گیا اور ہی اس کے دوست اور رشتہ دار اسے ماہرِ نفسیات کے پاس لے کر گئے تا کہ اس کا تسلی بخش علاج کیا جا سکتا۔ آپ نے اچھا کیا کہ اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا اور مجھے خط لکھا۔

آپکا ادبی دوست
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments