اگر حکمران کی دیانت داری واحد شرط ہے تو پھر سراج الحق کیوں نہیں؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

سوال یہ ہے کہ ایک قومی لیڈر میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔ کیا اس کا مالی طور پر شفاف ہونا اور مال و دولت سے دور بھاگ کر درویشی کی زندگی بسر کرنا ہی اسے حکومت کرنے کا حق دار بنا دیتا ہے؟

ایسا ہے تو آگے بڑھیں اور امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کی بیعت کر لیں۔ قومی قیادت میں ان کو تو مارکیٹ ہی ان کی درویشی کے دعوے پر کیا جاتا ہے۔ غربت میں زندگی بسر کی۔ صوبے کے خزانے کی کنجیاں سنبھالے رہے اور طرز زندگی غریبانہ ہی رہا۔ آج تک کرپشن کا ایک سکینڈل بھی خاص ان کی ذات سے منسوب نہیں ہوا۔ سیاست میں ان سے بڑھ کر کون ہے پھر؟

لیکن جب انتخاب کا مرحلہ آتا ہے تو یہ درویش صفت شخص مع اپنی جماعت کے بری طرح مسترد کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس میں واقعی پارٹی کے اندر جمہوریت ہے اور ادھر روپے پیسے کی چمک دکھا کر کوئی تاحیات اقتدار سے نہیں چمٹ سکتا ہے۔ ایک غریب شخص کو بھی جماعت والے امارت اور وزارت تک لے جا کر دکھا چکے ہیں۔

عوام ایسا حکمران چاہتے ہیں جو ان میں سے ہی ہو۔ جو ان کے مسائل سمجھے، ان کے مسائل کی بات کرے، اسی فانی دنیا کے کھانے پینے اور زندگی بسر کرنے کی مشکلات کو آسان بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی بات کرے۔ عوام سیاسی حکمران کو دوسری دنیا کے مسائل کے مسائل پر کلی توجہ مرکوز کرنے کا اختیار دینے کے قائل دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ انہیں ایسا شخص چاہیے جو کہ زعم تقوی یا کسی دوسرے زعم میں خود کو ان سے بالاتر قرار دیتے ہوئے ان کے مسائل کو درخور اعتنا قرار دینے کا قائل نہ ہو۔

اگر مالی دیانت داری ہی لیڈر کی واحد صفت ہے تو پھر لیڈر کو سیاسی پارٹیوں میں ڈھونڈنے کی بجائے بینک کیشئروں کی صفوں میں سے ڈھونڈا جائے جو دن بھر لاکھوں کروڑوں روپے اپنے ہاتھوں سے وصول کرتے اور دیتے ہیں اور ایک روپے کی کرپشن بھِی نہیں کرتے۔ سو مالی دیانت داری سے ہٹ کر بھی کچھ ہوتا ہو گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ فی زمانہ کوئی شخص بھِی تمام کمزوریوں سے پاک نہیں ہے، کسی میں ایک خامی ملے گی تو کسی میں دوسری۔

سوال یہ ہے کہ ایک لیڈر میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ میری نظر میں اس کا جواب کچھ یوں ہے:

کرشماتی شخصیت

لیڈر کی شخصیت ایسی ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اس کی کسی بھی خاصیت کی وجہ سے اسے دیکھیں اور اس کی بات توجہ سے سنیں۔ وہ بات کہنے کا فن جانتا ہو، عوام کو لبھا سکتا ہو۔ عوام کے جذبات کو زبان دے پائے۔ لوگ اسے اپنا ترجمان جانیں اور اس پر اعتماد کریں کہ وہ ان کی بات ہی کرے گا۔

لیڈر کا کردار بھی عوام کی نگاہ میں شفاف ہونا چاہیے۔ اس کی عمومی شہرت ایک دیانت دار شخص کی ہو جو کہ معاشرتی حدود و قیود کا پابند دکھائی دیتا ہو۔ کردار کے حوالے سے اس پر انگلی اٹھانا آسان نہ ہو۔

دوراندیشی اور منصوبہ بندی\"leadership\"

لیڈر کو دور اندیش ہونا چاہیے۔ اس کے ذہن میں واضح ہو کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ کس طرح سے پارٹی کو، قوم کو، معاشرے کو اور معیشت کو آگے لے کر چلنا ہے۔ وہ قلیل اور طویل مدتی منصوبے بنائے، اور عمومی طور پر درست اندازے لگائے کہ اس کے اقدامات کے کیا نتائج نکلیں گے۔ وہ پارٹی اور قوم کے لئے قابل عمل منصوبہ سازی کرنے کا اہل ہو۔

یہ نہ ہو کہ وہ محض ایک وقتی ہدف تو مقرر کر لے، مگر یہ نہ جان پائے کہ اس ہدف کے حصول کے بعد کیا ہو گا۔ وہ وزیراعظم کو تو کرسی سے ہٹا دے، مگر اس کے فرشتوں کو بھی یہ خبر نہ ہو کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ اگر آج نواز شریف استعفی دے بھی دیتے ہیں، تو اس کے بعد مریم نواز یا پھر نواز شریف کا کوئی نمائندہ ہی سامنے دکھائی دے گا ۔ آصف زرداری دکھا چکے ہیں کہ خود وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی کیسے حکومت چلائی جاتی ہے۔ وزیراعظم کے ملک سے غیر حاضر ہونے پر بھی محترمہ مریم نواز شریف کے ڈی فیکٹو وزیراعظم کے طور پر کام کرنے کی خبریں آتی رہی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی اگر کوئی یہ سمجھے کہ بفرض محال نواز شریف کے استعفی دینے کے بعد بھی وہی حقیقی حکمران نہیں ہوں گے، تو یہ اس کی خام خیالی ہی کہلائے گی۔

ارتکاز\"follow-leader\"

لیڈر کو علم ہو کہ وہ کیا نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے اپنے اہداف کیا ہیں، اس کی پارٹی کے راہنماؤں کو کیا کرنا چاہیے اور پارٹی کے اہداف کیا ہوں گے۔ وہ پوری توجہ ان اہداف پر مرکوز رکھے۔

ہمت و بہادری

لیڈر میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے جرات مندانہ فیصلے کر پائے۔ اس کے کئی فیصلے آگے چل کر اس کی ذات اور پارٹی کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں، مگر ان کا قوم کو فائدہ ہو گا۔ عوامی جذبات کے خلاف سخت فیصلے کرنے کی ہمت اس میں ہو تو وہ قوم کی بہتری کے لئے کچھ کر سکتا ہے۔

جب وقت ابتلا پڑے، تو لیڈر کو اپنے کارکنوں کے درمیان کھڑے دکھائی دینا چاہیے اگر کارکنوں پر لاٹھی چارج ہو رہا ہو تو نصرت بھٹو بھی سر پر ڈنڈا کھاتی دکھائی دے۔ جیل جانا ہو تو بھٹو پیچھے نہ ہٹے۔ ظالم حکمران کی جانب سے کارکنوں میں موت بانٹی جا رہی ہو تو پھانسی چڑھنے والا لیڈر بھی ہو۔

نظریات اور شخصیت میں لچک\"leadership2\"

ایک سیاست دان کے لئے شخصیت اور اصول میں بھِی لچک ضروری ہوتی ہے۔ ایک مثال دیتے ہیں۔ پچھلے تین سال کے پختونخوا کے ترقیاتی بجٹ کے بارے میں متواتر یہ سننے میں آ رہا ہے کہ محکمے اس کا استعمال کیے بغیر اسے واپس کر رہے ہیں۔ کسی بھِی محکمے میں کرپشن کو سو فیصد ختم کرنا ممکن نہیں ہے اور جس افسر کے محکمے میں یہ ہو گی، وہ بے لچک حکومت کے ہاتھوں رسوا ہو گا۔ مگر اگر وہ کام ہی نہیں کرے گا اور سال کے آخر میں بجٹ واپس کر دے گا، تو کرپشن بھی نہیں ہو گی اور کام بھی نہیں ہو گا۔ جبکہ ایک راشی ترین افسر اگر سو روپے میں سے پچاس روپے کی کرپشن بھی کر رہا ہے، تو کم از کم بقیہ پچاس روپے تو عوام پر لگ رہے ہیں، وہ سو فیصد سے محروم تو نہیں ہو رہے ہیں۔ حکومت کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کرپشن کو کم کرے، مگر کرپشن ختم کرنے کے نام پر کاروبار حکومت کو مت روکے۔ ایک سو فیصد ایماندار مگر کام نہ کرنے والے نا اہل شخص سے بہتر ایک ایسا شخص ہے جو کہ خواہ ستر فیصد ایماندار ہی کیوں نہ ہو، مگر کام تو کرتا ہو اور عوام کو کچھ سکون تو دے۔

سچائی

قوم لیڈر کو سچا پائے۔ وہ جو کمٹ منٹ کرے، اسے پورا کرتا دکھائی دے۔ قوم کو بے تحاشا سبز باغ دکھا کر اسے کالاباغ کے انجام سے دوچار کرنے والا نہ ہو۔ اگر یہ کہے کہ میں سچ بولوں گا، تو سچ بولتا بھی ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایک پریس کانفرنس میں ایک اعلان کرنے کے چند دن بعد ہی اس اعلان کے برخلاف کام کرنے کا عادی ہو۔

عاجزی اور تعاون\"a-kaizen-leaders-role\"

لیڈر کو عاجزی و انکسار کا پتلا ہونا چاہیے۔ وہی لیڈر قوم کو فلاح کے راستے پر چلا سکتا ہے جو کہ لوگوں اور گروہوں کو جوڑنے والا ہو۔ قوم کو تقسیم اور نفرت کی راہ پر چلانے والا قوم پر تباہی لانے کا باعث ہی ہوتا ہے۔

لیڈر اچھی زبان استعمال کرنے والا ہو۔ بدترین سیاسی حریفوں پر بھی کیچڑ مت اچھالے۔ خود کو ان کے سیاسی معاملات تک محدود رکھے اور ذاتی و خاندانی معاملات کو اپنی گفتگو کا موضوع نہ بنائے کہ یہ انداز صرف اول کے نہیں بلکہ تیسرے درجے کے لیڈروں کا ہوتا ہے۔

لیڈر انکساری سے کام لے، اسے اپنے اوپر اعتماد ہو کہ اس نے دوسروں کو یہ احساس نہیں دلانا ہے کہ وہ ان کے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا کر رہا ہے۔ وہ ہر ایک کو اپنا حریف نہ بنائے بلکہ لوگ اسے اپنا حلیف قرار دیں۔ بدترین سیاسی مخالف بھی اس کی شخصیت کی عزت کرنے پر مجبور ہوں۔ وہ دوسروں کی بات سنے، سمجھے اور یہ تسلیم کرے کہ وہ عقل کل نہیں ہے۔ غیر مبہم الفاظ میں بات کرے اور ایسے حل پیش کرے جن میں سب کو اپنے لئے کچھ دکھائی دے۔

سیاست نام ہی مفادات کے سودے کرنے کا ہے۔ ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملے گا، تو پھر ہی کاروبار حکومت چلے گا۔ سیاسی نظام حکومت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی شخص بادشاہانہ انداز میں صرف اپنی مرضی ہی چلائے۔

اگر سسٹم میں خرابی ہے، تو سسٹم درست کرنے پر فوکس کیوں نہیں کیا جاتا؟ افراد کی بجائے سسٹم ہدف کیوں نہیں بنایا جاتا؟ سسٹم درست کرنے کے نام پر کیا سیاسی مخالف بھی اپنے ووٹر کے دباؤ کے باعث ساتھ دینے پر مجبور نہیں ہوں گے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments