منکسر المزاج نیک انسانوں کی بستی کے اوّل جلول مکین


دنیا میں نیکی اور عجز و انکساری کا وجود ہمیشہ سے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم رہا ہے۔ نیکی عجز کے بغیر نیکی نہیں رہتی جب کہ وہ عاجز جو دوسروں سے بھلائی نہیں کرتا اس سے مخلوق عاجز آئے رہتی ہے۔ نیکوکاروں پر نظر دوڑائیں تو نظر پنسلین کو دریافت کرنے والے مشہور سائنسدان فلیمنگ پر جا ٹھہرتی ہے جس کی دریافت نے آج انسان کی اوسط عمر کو تقریباً دگنا کردیا ہے۔ لیکن حیرت ہے اس شخص پر کہ اس نے ساری زندگی اپنی دریافت پر کبھی غرور نہیں کیا۔

جب کوئی اس کی تعریف کرتا تو وہ جواب دیتا کہ پنسلین تو خدا نے بنائی تھی اگر دنیا میں سب سے پہلے اسے اس کے بارے میں معلوم ہو گیا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ چلیں چھوڑیں پنسلین کی دریافت تو ایک حادثہ تھا، مادام کیوری کی زندگی کا مطالعہ کرلیتے ہیں۔ وہ پہلی سائنسدان ہیں جنہیں دو مختلف مضامین فزکس اور کیمسٹری میں الگ الگ نوبیل انعام ملا۔ انہیں ریڈی ایشن پر کام کرنے کی وجہ سے فزکس میں نوبیل انعام ملا اور ریڈیم اور پلونیم کی دریافت پر کیمسٹری میں۔ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی خاتون تھیں۔ ان کے کام اور اس کے عالمی سطح پر اعتراف نے مادام کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا لیکن اس کے باوجود ان کا شیوہ انکسار تھا۔ سائنسدانوں کے علاوہ آپ کو دورحاضر کے ولیوں وارن بفٹ، بل گیٹس اور مارک ذکربرگ کی زندگی بھی نمود و نمائش سے عاری نظر آئے گی۔ المختصر دنیا کے اکثر عظیم لوگوں کی شخصیت میں غرور اور خود پسندی کا شائبہ تک نہیں ہوتا اور شاید اس لئے وہ عظیم ہوتے ہیں۔

اس بستی کے کم و بیش تمام مکینوں کا بھی اپنے بارے میں یہی گمان ہے کہ وہ نیک اور عاجز انسان ہیں۔ اپنے آپ کو کون برا کہتا ہے اور ویسے بھی خوش گمانی ایک اچھی خصلت ہے۔ ہم نیک ہیں تبھی پاکستان وہ ملک ہے جس کے باشندے دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جب نیکی ایک ہاتھ سے کی جائے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی تو معلوم نہیں پھر یہ خیرات کا حساب کتاب کون اور کیسے رکھتا ہے؟ میں نے اپنے محلے کے ایک انتہائی زیرک بزرگ سے جب یہ سوال پوچھا تو انہوں نے انتہائی بے نیازی سے جواب دیا، ”بیٹا جو خیرات لیتا ہے وہ سارا حساب رکھتا ہے“۔

میں نے انہیں تنبیہ کی کہ آپ آزادی اظہار رائے کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آج کل بڑے بڑے اخبارات کے مالکان خود خبر بنے ہوئے ہیں، اس لئے آپ بھی احتیاط کیا کریں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے صدقات کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ آپ کو اپنے اردگرد کوئی نوجوان کالا بکرا نہیں ملے گا کیونکہ بکرا ہو اور اوپر سے کالا ہو تو بچپن میں ہی اس کی جان صدقہ ہو جاتی ہے، بقول یوسفی، ”عالم اسلام میں ہم نے کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔ “

ہم اتنے بامروت ہیں کہ موسیقی سے لطف اندوز ہورہے ہوں تو آواز اتنی اونچی ضرور رکھتے ہیں کہ ہمسائے بھی سنیں اور سر دھنیں۔ اس سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں ہوتا کہ ”شیلا کی جوانی“ جیسے گانے انہیں پسند ہیں یا نہیں۔ بچوں کے ساتھ دریا کی سیر کو جائیں تو اپنے بچوں کو کھانا کھلا کر نیکی کرتے ہیں اور پھر بچی کچھی نیکی کو دریا میں ڈال دیتے ہیں۔ ہم اتنے بامروّت ہیں کے ہم اپنوں کی خوشی، غمی میں ضرور شریک ہوتے ہیں، چاہے ہمیں کرونا ہی کیوں نہ چمٹا ہوا ہو۔

اس کے بعد وائرس سے مرنے والا سوچتا ہے کہ زندگی موت تو اللّہ کے ہاتھ میں ہے لیکن باجی کتنی اچھی ہیں جو فرانس سے واپس پہنچتے ہی ہمارے بھائی کی شادی میں بلائیں لیتی رہیں۔ الغرض ہماری نیکیوں کی ہزاروں داستانیں ہیں لیکن مجھے اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے شرمندگی ہورہی ہے۔ ویسے بھی عاجز لوگ اپنی خوبیاں خود کیسے بیان کرسکتے ہیں۔

دنیا ہماری تعریف میں رطب اللسان ہے لیکن ہم ہیں کہ مجسم عجز بنے بیٹھے ہیں۔ ہمارے سورماوٗں نے کئی دفعہ دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں تہس نہس کر دیا۔ دنیا ہماری بہادری پر عش عش کر اٹھی لیکن ہم یہ سوچ کر کہ قدرت کو عاجزی پسند ہے صاف مکر گئے کہ جو دشمنوں کے ملک میں ان سے سر بکف تھے وہ ہم تھے۔ ہم ایسے باہم شیر و شکر ہیں کہ ہم ذات پات، رنگ نسل، مذہب فرقہ، زبان قوم اور امارت غربت کے فرق سے کب کے نکل چکے ہیں۔

میرے دوست فراز کا کہنا ہے کہ وہ آج تک کبھی اپنے سید ہونے پر گھمنڈی نہیں ہوا۔ ویسے اس کا غرور کرنا بنتا بھی نہیں کیونکہ چند سال پہلے وہ ہمارے سامنے سید بنا ہے۔ اس ملک میں جو امیر ہے اسے ہر وقت غریب کی فکر ستائے رکھتی ہے اور جو غریب ہے وہ بھی یہی سوچتا رہتا ہے کہ کیسے وہ امیر ہوجائے اور پھر غریبوں کا خیال رکھ سکے۔ جو سفید ہے وہ اپنے رنگ پر غرور کرنے کے بجائے اس بات پر پریشان ہے کہ گندمی رنگت والے کون سی کریم استعمال کریں تاکہ ان کا رنگ بھی نکھر سکے۔ سنا ہے تبھی آج کل کئی لوگ اپنے دوستوں کو ان کی سالگرہ پر فئیر اینڈ لولی کے تحائف دینے لگ گئے ہیں۔

یہ خدا کی بستی نیک اور منکسر المزاج لوگوں سے بھری پڑی ہے لیکن دکھ تب ہوتا ہے جب یہاں اوّل جلول اور اوچھے لوگ نظر آجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گھی کا ایک چھوٹا ڈبہ بھی خیرات کریں تو وصول کرتی غریب بیوہ کے ساتھ تصویر ضرور بنواتے ہیں۔ کمینے مخیر کے چہرے کی رعونت اور غریب کی شکل پر رقصاں بے بسی اور مجبوری حساس دل لوگوں کی طبیعت کو مکدر رکھتی ہے۔ میرے استاد محترم کا کہنا ہے کہ، ایسی گھٹیا اور چھوٹی حرکتیں کرنے والے عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے مال غلط ذرائع سے کمایا ہوتا ہے جب کہ مال حرام کی کسی مستحسن اور باعزت طریقے سے تقسیم خدائے پاک کو منظور ہی نہیں۔ اس لئے ایسے مال کی تقسیم ایسے ہی ہوتی ہے جیسے رائج العام ہے۔

دیکھئیے گا، ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب فوٹو گرافر ایسی کوئی بھی تصویر بنانے سے انکار کر دیا کرے گا۔ اس دن اس بستی کے اوّل جلول مکینوں کے بے بسی دیدنی ہوگی۔ آپ کو ایک پتے کی بات بتاوں، دنیا میں کمینہ بدخصال جب بے بس ہوجائے تو انتہائی قابل رحم ہوتا ہے، لیکن تب اس پر کوئی رحم نہیں کرتا۔

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments