کرونا کے مریض علاج گاہوں سے کیوں فرار ہوتے ہیں؟


جب سے کرونا وائرس نے دنیا کو لپیٹ میں لیا ہے ہمیں عجیب و غریب خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ دن پہلے خبر ملی کہ ایک رنجور عاشق نے اپنی بیوفا محبوبہ سے بدلہ لینے کے لیے اس کے منہ پر چھینک دیا۔ حادثاتِ زمانہ ہیں کہ منہ سے نکلنے والے ذرات تیزاب سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ کیا کسی کے منہ پر چھینکنا قابلِ تعزیر جرم ہے؟ اس سوال کا جواب ماہرین قانون کے کے سپرد کرتا ہوں۔ خبر ہے کہ ایک یورپی ملک میں کرونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کے باعث خاتون نے خود کشی کر لی۔

وطنِ عزیز میں آئے روز خبریں آتی رہتی ہیں کہ کرونا کے مریض آئسولیشن سنٹر سے بھاگ گئے یا بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب جب کہ میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو تازہ خبر آئی ہے کہ لاہور کے آئسولیشن سنٹر سے ایک خاتون فرار ہو گئی ہیں۔ حکومت کو کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ کے ساتھ انھیں قابو میں رکھنے کے لیے اضافی نفری تعینات کرنی پڑ رہی ہے جو کہ عوامی جیب پر مزید بوجھ ڈال رہی ہے۔ اگر ایسے مریض بھاگنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ مرض تیزی سے پھیل سکتا ہے اور اس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

ایسا کیوں ہے؟ آئیے کرونا کے مریضوں کے اس رویے کا عمرانیاتی تجزیہ کرتے ہیں۔ مشہور فرانسیسی ماہر عمرانیات ایمائیل ڈرخائم (Emile Durkheim) نے نظریہ پیش کیا کہ بعض اوقات معاشرے میں ایسی غیر معمولی صورت ِحال پیدا ہو جاتی ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کون سا رستہ اختیار کریں۔ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ معاشرے میں صحیح سمت متعین کرنے مشکل پیش آتی ہے۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ سمت متعین کرنا تو دور کی بات ہے کہ دراصل کسی سمت کا ادراک ہی نہیں ر ہتا۔ ایسی صورت ِ حال کو ڈرخائم نے عدمِ معیاریت (Anomie) کا نام دیا۔

عدمِ معیاریت کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص صورت ِ حال میں صحیح سمت کا معلوم نہ ہونا۔ یہ بنیادی طور پر لا معمولاتی (Normlessness) کی سی صورت ِ حال ہے جو معاشرتی توڑ پھوڑ (Social disorganisation)

یا معاشرتی کھچاؤ ( (Social Strain کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ جس میں ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ کس رستے پر چلنا ہے اور کون سا رویہ مناسب ہے۔ مثال کے طور پر، ڈرخائم نے دعویٰ کیا کہ ہے اگر کوئی نادار شخص راتوں رات مالا مال ہو جائے یا کوئی تونگر شخص ایک آن میں مفلس ہو جائے تو دونوں کے لیے یہ صورت ِحال بالکل نئی ہے۔ دونوں افراد ایک لا معمولاتی کیفیت سے دوچار ہیں جس کو ڈرخائم نے عدمِ معیاریت کا نام دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ، ڈرخائم کے مطابق ایسے دونوں افراد میں خود کشی کرنے کے امکانات برابر ہیں کیوں کہ دونوں کے سامنے ایک نئی سماجی حقیقت (Social reality) جس میں ڈھلنے کے لیے دونوں کے پاس نہ تو مطلوبہ سماجی مہارتیں (Social skills) ہیں او ر نہ ہی دونوں نئی صورتِ حال کے معمولات (Norms) سے واقف ہیں۔ ڈرخائم کے اس نظریے کو مدِ نظر رکھا جائے تو دراصل یہی لامعمولاتی صورت ِ حال کرونا کے مریضوں کو آئسولیشن سنٹر سے بھاگنے پر مجبور کرتی ہے۔ آفاتی ادوار میں معاشرتی توڑ پھوڑ کی وجہ سے لا معمولاتی حالات پیدا ہونا نا گزیر ہیں۔

امریکی ماہر عمرانیات ٹالکٹ پارسنز (Talcott Parsons) کہتا ہے کہ ہم ہر حال میں معاشرے کے بنا ئے ہوئے معمولات کی پیروی کرتے ہیں تا کہ ہم عدمِ معیاریت کے مسئلے کا شکار نہ ہوں۔ یہ معمولات ہر جگہ اور ہر طرح کی صورت ِحال میں ہما ری راہنمائی کرتے ہیں کہ صحیح رستہ کون سا ہے او ر کون سا رویہ مناسب ہے۔ پارسنز کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص بیمار بھی ہو جائے تو وہ تب بھی معاشرے کے متعین کردہ معمولات کی پیروی کرنا نہیں بھولتا۔

اس کے مطابق ایک شخص جسمانی طور پر بیمار ہونے کے با وجو د بھی معاشرے کے بنائے گئے معیار ات کے مطابق عمل کرتا ہے او ر معاشرتی توقعات کے مطابق اپنا رویہ ایک بیمار شخص کی طرح تبدیل کرتا ہے۔ یہی بیمار شخص دوسروں سے بھی توقع رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ معا شرے کے طے کردہ معمولات کے مطابق برتاؤ کیا جائے۔ خدانخواستہ ہم سے کوئی صاحبِ فراش ہو جاتا ہے تو وہ اپنی روز مر ہ زندگی کے معمولات کو خیر باد کہ دیتا ہے، ہسپتال جاتا ہے اور اگر معالج ضروری سمجھتا ہے تو اسے داخل کر لیا جاتا ہے۔ لوگ ایسے مریض کی عیادت کے لیے جاتے ہیں، اسے تسلی دیتے ہیں اور شفایابی کے لیے دعا کر تے ہیں۔ ایسی بیماری اپنے ساتھ کوئی سماجی کلنک (Social stigma) بھی نہیں لاتی۔

ؒ لیکن کرونا کے مریض کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاشرے کے متعین کردہ Sick role کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کر سکتا۔ نہ وہ کسی سے مل سکتا ہے اور نہ ہی اس کے عزیز و اقارب اس سے مل سکتے ہیں۔ نہ عام روٹین والا Sick role ہے اور نہ اس کے چاہنے والے تیمار دار کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کی سکت بھی رکھتا ہے اگر ابھی تک صرف کرونا کی بیماری ابتدائی علامات تک محدود ہے تو آئسولیشن میں رہنے والا مریض جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔

کرونا کے ساتھ سماجی کلنک لگا ہو ا ہے جو کہ باقی بیماریوں کی صورت میں نہیں ہوتا۔ عام حالات کے بر عکس، لوگ ایسے مریض سے دور بھاگتے ہیں اور حکومت بھی اُسے لوگوں سے دور رکھنے کے لیے چوکیدار تعینات کرتی ہے۔ یہ ساری صورتِ حال کرونا کے مریض کے لیے ماورائے ادراک ہے جس سے نپٹنے کے لیے اس کے پاس نہ تو مطلوبہ سماجی مہارتیں ہیں اور نہ ہی ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے پہلے سے کوئی معمولات موجود ہیں جو کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد کریں۔ یہ وہ عدمِ َِؑ معیاریت کی حالت ہے جس کے نتیجے میں کرونا کا مریض شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نئی سماجی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ نئی معاشرتی اخلاقیات اس کو حواس باختہ کر دیتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے علاج سے بھی بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ اقبال کا یہ مصرعہ اس کی ذہنی حالت کی عکاسی کرتا ہے

یہ جہاں عجب جہاں ہے، نہ قفس نہ آشیانہ

ایسے افرد کو اس لا معمولاتی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں نئی سماجی حقیقت سے روشناس کرایا جائے۔ کرونا کے مریضوں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ جس بیماری میں وہ مبتلا ہیں اس کی نوعیت دوسری بیماریوں سے مختلف ہے اور اس کا علاج بھی مختلف طریقہء کار کا متقاضی ہے۔ انھیں صحت کی اچھی سہولیات دینے کے ساتھ مناسب انداز میں کونسلنگ بھی مہیا کی جائے۔ مریضوں کو یہ سمجھایا جائے کہ آئسولیشن میں رہنا ان کے خاندان، معاشرے اور ملک کے لیے کتنا اہم ہے۔ ان کی شناخت مخفی رکھنے کی کوشش کی جائے تا کہ سماجی کلنک سے بچا یا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments