طوطے ۔ شکیل عادل زادہ


\"shakeel

(اسے لکھے بیالیس برس بیت گئے ہیں، مگر سب رنگ کے بازی گر جناب شکیل عادل زادہ کی یہ تحریر گویا آج کے حالات پر تبصرہ ہے : مدیر)

(اداریہ ’سب رنگ‘ – 1974)

ہمارے ملک کے لوگ ایک فن میں بڑے طاق ہیں، وہ ہے گفتار کا فن۔ اُنھیں بولنا خوب آتا ہے۔ بے تکان بولتے ہیں۔ کوئی مسئلہ یا معاملہ ہو، وہ اُس پر رائے زنی ضرور کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ گمان ہوتا ہے کہ اِس ملک میں ایک ہی کام ہوتا ہے۔ تنقید اور تبصرے کی ایسی گرم بازاری ہے کہ اصل موضوع کہیں گم ہو کے رہ جاتا ہے۔ ملک کے داخلی مسائل ہوں یا خارجی، ہر طرف قیاس آرائیوں کا ایک شور سنائی دیتا ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک صاحب نے از راہ تفنن قومی معاملات کے بارے میں ایک خبر تخلیق کر کے کسی کے گوش گزار کر دی تھی۔ خبر کی نوعیت کسی انکشاف کی سی تھی۔ شام تک یہ خبر عروس البلاد میں گشت کرتی ہوئی اُن کے گھر جا پہنچی اور اُن کی بیگم نے اُنھیں ایسے انداز سے سنائی کہ وہ دنگ رہ گئے۔ جشن کاروں نے اُن کی تخلیق کو اور جِلا بخش دی تھی۔ اِس میں کچھ اور اضافے ہوگئے تھے، کچھ اور ترمیم ہو گئی تھی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لوگ باتیں ہی کرتے رہتے ہیں، جس وقت وہ کام کر رہے ہوتے ہیں، اُس وقت ممکن ہے، خودکلامی میں مصروف ہوتے ہوں۔ نکتہ آفرینی کی جست جو اُنھیں ہر لحظے رہتی ہے، ہر شخص خطیب ہے۔ ہر شخص نکتہ داں ہے اور اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔ کتابیں الماریوں میں سجی رہتی ہیں اور اخبار اشاعت کے لیے ترستے ہیں۔ بسیار گوئی سے کیا ہوتا ہے؟ وہی ہوتا ہے جو اس ملک میں ہر سمت نظر آ رہا ہے۔ انتشار، کرب، احساسِ عدم تحفظ۔

بلا شبہ بولنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ صرف زبان ہلانی پڑتی ہے مگر زبانیں صرف رس نہیں انڈیلتیں، زہر بھی کشید کرتی ہیں۔ بولنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے، یہ ہر شخص کا حق ہے، وہ جتنا دِل چاہے بولے کبھی خاموش نہ رہے مگر اہلِ دانش کو اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ چرب زبانی سے کچھ اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ فکر کے بعد احتیاط سے زبان چلانے میںبڑی عافیت ہے اور زیادہ بولنا اُس وقت تک اچھا نہیں لگتا جب تک اُس کے عقب فکر کا عمق نہ ہو۔ ہمارے ہاں پندرہ فی صد کے قریب لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جنھوں نے صرف دست خطوں اور حرفوں کی پہچان کی بنیاد پر پڑھے لکھوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرادیا ہے۔ نئے عہد میں ہر موضوع پر دُنیا بھر میں تحقیق و تفتیش کا کام جاری ہے۔ ہمارے لوگوں کو کچھ خبر نہیں کہ نادان لوگوں کے سامنے موضوعات پر بولتے ہوئے کتنی احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی غیر علمی معلومات سینہ بہ سینہ ساری آبادی تک منتقل ہو جاتی ہیں۔ لوگ اپنے اپنے طور پر قیاس کرتے رہتے ہیں، افسانے گھڑتے ہیں اور اندیشے پالتے رہتے ہیں۔ ملک کا کارواں زبانی جمع خرچ سے کتنا متاثر ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس طرح کیجیے کہ اس عرصے میں دوسرے ملکوں نے اپنے کم وسائل کے باوجود کتنی ترقی کرلی، یقینا اُنھوں نے کم باتیں کی ہوں گی۔

خدا کے لیے کم بولیے اور اپنا کام کیجیے۔

* طوطے۔ اصل لفظ توتے ہے مگر ہمارے بزرگ جناب مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں۔ ”اور یہ بھی اُنھی سے (حقی صاحب) معلوم ہوا کہ عطائی اور طوطا کی صحیح املا اتائی اور توتا ہے۔ جوشِ اصلاح میں ہم تو طوائف کو بھی ’ت‘ سے لکھنے پر طیار تھے مگر طوطے والی بات دِل کو نہیں لگی۔ اس لیے کہ توتے کو اگر ’ط‘ سے لکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ زیادہ ہرا معلوم ہوتا ہے بل کہ ’ط‘ کا دائرہ ذرا ڈھنگ سے بنائیں تو چونچ بھی نظر آنے لگتی ہے‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments