عمران خان  احسان فراموش ہیں اور فی الحال وزیر اعظم ہیں


حال ہی میں چینی اور گیہوں  کی قیمتوں  کے حوالے سے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹوں کے بعد   حکمران جماعت کے سیاسی مستقبل اور وزیر اعظم عمران خان کے آپشنز کے بارے میں مباحث زوروں پر ہیں۔   اگرچہ   گزشتہ ہفتہ کے دوران  شکر اور گیہوں  کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے حوالے سے دو  رپورٹیں سامنے آئی تھیں لیکن   چینی کی برآمد اور اس پر پنجاب حکومت کی سبسڈی کے معاملہ پر زیادہ  گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ  یہ ہے کہ  رپورٹ میں  وفاقی وزیر  خسرو بختیا رکے علاوہ جہانگیر ترین کا نام بھی شامل تھا جنہیں بظاہر تحریک انصاف کے معاملہ میں کنگ میکر کی حیثیت  حاصل رہی ہے۔

اگرچہ دسمبر 2017  میں سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو  پبلک عہدہ سنبھالنے  کا نااہل  قرار دیا تھا لیکن ا س کے باوجود   نہ تو عمران خان نے ان سے دوری اختیار کی اور نہ ہی 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو   کامیاب کروانے کے لئے  جہانگیر ترین  کی کوششیں ماند پڑیں۔  وہ انتخابات سے پہلے  الیکٹ ایبلز کو  اپنے پرائیویٹ طیارے میں بھر کر عمرا ن خان کے پاس لاتے رہے  جہاں وہ نئے لیڈر سے عہد وفاداری کے ذریعے  اپنے لئے پارٹی ٹکٹ کا حصول یقینی بناتے۔ انتخابات کے بعد جب یہ واضح ہوگیا کہ مرکز اور پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی بننے کے باوجود تحریک انصاف کو حکومتیں بنانے کے لئے آزاد امیدواروں اور چھوٹی پارٹیوں کی ضرورت پیش آئے گی تو بھی جہانگیر ترین کی دولت اور اثر و رسوخ ہی کام آیا۔ اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملک میں سیاسی کامیابی کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھنے والے نام نہاد مقتدر حلقے بھی عمران خان کو وزیر اعظم بنا کر پاکستان کا سیاسی نقشہ تبدیل کرنے کے خواہش مند تھے۔ جہانگیر ترین ان حلقوں کے چہیتے کہے جاتے ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ شوگر اسکینڈل سامنے آنے کے بعد  عمران خان  نے اگر خسرو بختیار کو بھینچ کر گلے لگایا ہے تو جہانگیر ترین سے  دوری اختیار کرنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔  لیکن یہ بات طے  ہے کہ شوگر اسکینڈل پر اٹھائے  گئے سیاسی طوفان اور  احتساب کے نام پر عمران خان کی دو ٹوک رائے  کو سامنے لانے کے لئے جو  مہم جوئی کی گئی ہے اس کے دو مقاصد ہیں:

 1)عمران خان کی ایمانداری اور بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا ڈھنڈورا پیٹ کر  حکومت  کی معاشی ناکامیوں اور کورونا وائرس کی صورت حال  سے نمٹنے میں بدانتظامی  سے ہونے والے نقصان  کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تاکہ لوگوں کی توجہ فوری طور سے درپیش صحت اور معیشت  کے مسائل سے ہٹائی جاسکے۔ اس طرح پاکستان  شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کورونا وائرس  پر مباحث کی بجائے سیاسی جوڑ توڑ اور  وزیر اعظم کی  امیج بلڈنگ کے لئے   ایک اسکینڈل کو  بھرپور طریقے سے استعمال کیا  جارہا ہے۔

2)اس پروپیگنڈا مہم بلکہ اس سے بھی پہلے چینی کی برآمد اور اس پر دی گئی سبسڈی پر  تیار  ہونے والی  رپورٹ کو جاری کرنے کا مقصد بھی دراصل جہانگیر ترین سے دوری اختیار کرنا تھا۔  اگرچہ جہانگیر ترین کے پاس کوئی سیاسی  یا حکومتی عہدہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ان کے سیاسی اثر و رسوخ اور عمران خان کے ساتھ قریبی تعلقات کے حوالے سے رائے موجود تھی۔ اب رپورٹ کی آڑ میں جہانگیر ترین کو نشانہ بنا کر عمران خان اور ان کے رفقا دراصل ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہ رہے ہیں۔ ایک تو عمران خان کی دیانتداری کا بت از سر نو استوار کرکے ان کی  سیاسی  و معاشی ناکامیوں  پر پردہ ڈالنا  تو دوسرے  جہانگیر ترین کو غیر فعال کرنا ۔ یہ خبریں موجود ہیں اور جہانگیر ترین نے بھی متعدد انٹرویوز میں اس کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان کے قریب افراد انہیں جہانگیر ترین سے دور کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے اس حوالے سے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کا نام  لیا ہے اور کہا  ہے  کہ یہ مشکل وقت گزر جائے گا اور وہ عمران خان کے دوبارہ قریب ہوجائیں گے۔ لیکن یہ  جاننا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ قربت کی امید کرنے والا اور غلط فہمیوں کے ازالے کا خواہشمند کوئی شخص اپنی مایوسی کے اظہار کے لئے میڈیا کو استعمال نہیں کرتا۔

یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ عمران خان  کے   کچھ قریب ترین  لوگ جہانگیر ترین کو  غیر فعال کرنا چاہتے تھے لیکن عمران خان کا سارا ماضی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنی ترقی، کامیابی اور سرخروئی کے لئے اپنے قریب ترین لوگوں کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔  یہ سلسلہ  کرکٹ کپتان کے طور پر  شروع ہؤا جب انہوں نے اپنے  ہی کزن ماجد خان کا کیرئیر ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا کیوں کہ ان  کی موجودگی میں ان کی قائدانہ صلاحیتیں چیلنج ہونے کا امکان تھا ۔پھر تحریک انصاف کے  چئیرمین کے طور پر انقلابی نظریاتی لیڈر سے موقع پرست  رہنما  بننے کے سفر میں انہوں  اپنے ہی  عزیزوں انعام اللہ نیازی اور حفیظ اللہ خان نیازی کے علاوہ  جسٹس (ر) وجیہ الدین اور حامد خان جیسے ساتھیوں سے   دوری اختیار کی۔   عمران خان صرف اس شخص کی دوستی کو  ضروری سمجھتے ہیں جو ان کے عزائم اور خواہشوں کی تکمیل میں ان کے کام آسکے۔ اس راستے کی رکاوٹ بننے والے کسی شخص کو وہ زیادہ دیر برداشت کرنے  کی شہرت نہیں رکھتے۔  جہانگیر ترین کے بارے میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ  عمران خان  نے ان سے جتنا کام لینا تھا وہ لیا جاچکا ہے۔ اب وہ غیر ضروری بوجھ تھے ۔ پارٹی میں ان کی موجودگی سے عمران خان کو ہمیشہ  احساس کمتری رہتا تھا کہ انہیں وزیر اعظم بنوانے والا دراصل جہانگیر ترین ہے۔ شکرگزار ہونا یا کسی کا احسان ماننا عمران خان جیسے لوگوں کے خصائص  میں شامل نہیں ہوتا۔

 سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کی وجہ سے جہانگیر ترین کھل کر کوئی سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن گزشتہ دو سال کے مشاہدہ  سے یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ  بہر حال  عمران خان یا اقتدار سے دور ہونے کے لئے بھی تیا رنہیں تھے۔  اگر وہ نااہلی  یا عمران خان کو  اقتدار دلوانے کے بعد  خاموشی سے گھر بیٹھ جاتے اور اپنے کاروبار پر توجہ دیتے تو شاید انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا اور عمران خان بھی انہیں بوجھ یا اپنے لئے خطرہ سمجھ کر ان سے جان چھڑانے کے کسی موقع کی تلاش میں نہ  رہتے۔  اس کے برعکس جہانگیر ترین نے عمران خان کے قریب رہنے، ان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے اور پارٹی کے معاملات میں پسند ناپسند کو مسلط کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ انہیں کوششوں کی وجہ سے پارٹی  اور عمران خان کے قریبی لوگوں سے ان کی چپقلش کا سلسلہ شروع ہؤا جو  اب براہ راست عمران خان کے ساتھ تصادم  کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

شوگر اسکینڈل کے بارے میں رپورٹ کے حوالے سے بہت بات کی جاتی رہی ہے اور  عمران خان نے اس کا کریڈٹ لینے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ لیکن  وفاقی حکومت کی اجازت سے شکر کی برآمد اور پنجاب حکومت کے فیصلہ کے تحت سبسڈی کی ادائیگی میں اگر کچھ غلط ہؤا تھا تو وہ سرکاری سطح پر فیصلوں کا جھول ہے۔ عمران خان  کو بطور وزیر اعظم اور عثمان بزدار کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ا س کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ جس رپورٹ کو عمران خان کی دیانت اور قد آور شخصیت کا پرتو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں  یہ واضح نہیں کیا گیا کہ مرکز اور پنجاب حکومتیں اس بحران کی اصل ذمہ دار  تھیں۔ ملک کی شوگر ملوں کے مالکان ہی نہیں کوئی بھی سرمایہ دار  کسی بھی سرکاری پالیسی سے  فائدہ حاصل  کرنے کی کوشش کرے گا۔ جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور دیگر لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ 25 اپریل کو سامنے آنے والی نام نہاد تفصیلی فورنزک رپورٹ بھی اس بنیاد پر منافع کمانے والے عناصر کو کسی جرم کا مرتکب قرار نہیں دے سکتی۔ لیکن  اسے بعض لوگوں کی سیاسی حیثیت متاثر کرنے کے لئے ضرور استعمال کیا جائے گا۔ یہ سلسلہ وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے جیالے پہلے ہی شروع کرچکے ہیں۔

جہانگیر ترین سے دوری کی ایک وجہ مقتدر حلقوں کے ساتھ  عمران خان کے پیدا ہوتے فاصلے بھی ہوسکتے ہیں۔ کورونا وائرس  کا بحران سامنے آنے سے پہلے بھی عمران خان کی ناکام معاشی پالیسیوں اور سیاسی عدم مفاہمت کی وجہ سے  سول ملٹری تعاون کا تاثر ماند پڑنے لگا تھا۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکمت عملی کے حوالے سے عمران خان کی  پالیسی یا بیان بازی صرف سندھ حکومت  کےخلاف نہیں تھی بلکہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ فوج بھی اس طریقہ سے مطمئن نہیں تھی۔ اسٹبلشمنٹ لاک ڈاؤن  نافذ کرنا ضروری سمجھتی تھی جبکہ عمران خان اس کے خلاف رہے ہیں۔ ان کی واضح رائے کے باوجود  تمام صوبوں میں فوج کی نگرانی میں کسی نہ کسی طور لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ اسی طرح نیشنل کمانڈ اینڈکنٹرول سنٹر کے  ذریعے صوبوں سے مواصلت اور کورونا کے خلاف  مربوط حکمت عملی اختیار کرنے کی کوششوں کا آغاز بھی کیا گیا ۔ اس کام میں بھی وفاقی حکومت کا براہ راست کوئی کردار  دکھائی نہیں دیتا۔

اسی پس منظر میں  یہ خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ عمران خان کی حکومت کچھ دنوں کی مہمان ہے۔  یا موجودہ بحران  کے بعد انہیں  ان ہاؤس تبدیلی  کا سامنا ہوسکتا ہے۔ انہی خبروں کے جلو میں اب یہ خبر پلانٹ کروائی جارہی ہے کہ عمران خان نے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے ۔ وہ ضرورت پڑنے پر صدر کو فوری طور سے اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دیں گے۔ بظاہر یہ خبریں بے بنیاد ہیں۔ تاہم اگر عمران خان اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات منعقد کروانے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں  یا ملک کو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ قومی اسمبلی کی  ماہیت   میں  کوئی ڈرامائی تبدیلی واقع  ہونے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اب اقتدار کا ہما عمران خان  کے سر پر بیٹھنے سے انکار کردے۔

سیاسی طور سے تقسیم شدہ ایوان جمہوریت کو مستحکم کرنے میں کوئی کردار ادا  نہیں کرسکتا  ۔ اگر کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو اور  سیاسی گروہ ایک دوسرے کو قبول کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں   تو پارلیمانی امور تعطل کا شکار ہی رہتے ہیں۔  فی الحال اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ نئے انتخابات کی صورت میں  کوئی ایک جماعت بہت بڑی اکثریت  کے ساتھ سامنے آئے گی یا عمران خان سیاسی منظر نامہ سے غائب ہوجائیں گے۔  ا س لئے عمران خان حکومت کرتے رہیں۔ اسمبلیاں توڑ کر ان کی سیاسی حیثیت یا قد کاٹھ میں اضافہ کا امکان نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments