کیا وہ لڑکی جھوٹی تھی؟


اس دن موسم کچھ سرد تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر گہرا ابر تھا۔ میں ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کے چیف ایڈیٹر اسد صاحب کے آفس میں بیٹھا تھا۔ در اصل میں ’لیل ونہار‘ کے ادبی صفحے کا انچارج تھا۔ اسی حوالے سے وہاں میری حاضری ہوتی تھی۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں تھا۔ یہ خوشبو سے بھرا ایک جھونکا تھا جب کہ آفس کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔ یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ اس بادِ نسیم کا جھونکا تھا جو کسی حور شمائل کے بدن کو چھو کر آتی ہے۔

وہ اسد صاحب کی اجازت سے اندر آئی تھی لیکن میں ایک فائل میں اس قدر مگن تھا کہ مجھے اس کی آمد کا اس وقت پتا چلا جب کمرا مہک اٹھا۔ میں نے نگاہیں اوپر اٹھائیں تو ایک لحظے کے لیے فضا پر سکوت طاری ہو گیا۔ وہ کچھ بول رہی تھی لیکن مجھے الفاظ سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ لگتا تھا دستِ قدرت نے اسے بڑی فرصت سے بنایا ہے۔ ترشا ہوا مرمریں بدن اور انتہائی دل کش چہرہ جس کی طرف دیکھنے کے بعد دنیا کی کسی چیز میں حسن نظر نہ آئے۔

شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس کی خوب صورتی بیان کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں لیکن آپ کا اندازہ صحیح نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے کچھ بیان ہی نہیں کیا۔ میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں جو اس کے حسن کا احاطہ کر سکیں۔ میں کہاں سے وہ نادر تشبیہات اور استعارات لاؤں جو سراپا نگاری کا حق ادا کر سکیں۔

ان دونوں کی گفتگو میں میرا نام آیا تو میں چونک اٹھا۔ میرے کانوں میں اس لڑکی کی آواز گونجی۔
”میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے وصی صاحب سے ملنا ہے“
”تو میں نے آپ کو جواب دے دیا ہے کہ مل لیجیے، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے“۔ اسد صاحب نے بیزاری سے کہا۔
”یہ کیسا جواب ہے۔ مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔ آپ رہنمائی فرما دیں“۔ وہ بولی۔
”تو یوں کہیے ناں، یہ سامنے ہی تو بیٹھے ہیں۔ وصی صاحب آپ بتاتے کیوں نہیں۔ “ اسد صاحب نے میری طرف رخ کیا۔

”جی میں بتانے ہی والا تھا“ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
لڑکی میری طرف متوجہ ہوئی۔ اس کی نگاہیں عقیدت بھری تھیں۔
”آپ ہی وصی ہیں ناں؟ “ اس کا انداز سوالیہ تھا۔
”کوئی شک؟ “ میں نے بھی سوال کیا۔
”جی نہیں“ وہ مسکرا اٹھی۔
”بیٹھیے ناں، کہیے کیسے آنا ہوا؟ “
ہم نے کسی کو دل کا جو مہماں بنا لیا
کچھ اور اپنا حال پریشاں بنا لیا
اس نے بیٹھتے ہی شعر سنا دیا۔
”یہ آپ ہی کا شعر ہے، آپ کی تازہ غزل جو ادبی رسالے میں گزشتہ ہفتے چھپی ہے اس میں شامل تھا“۔ وہ بولی۔
”بہت خوب میرے بارے میں شاید آپ کافی معلومات رکھتی ہیں لیکن میرا چہرہ آپ پہچان نہیں پائیں“۔
”جانے دیجیے، کئی مہینوں سے آپ کے تعاقب میں ہوں۔ اس دوران جہاں جہاں آپ کا کلام چھپا ہے وہ سب اخبارات و رسائل میرے پاس محفوظ ہیں۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ کسی میں آپ کی تصویر نہیں چھپی تھی ورنہ ایک لمحے میں پہچان لیتی“۔

”اچھا چھوڑیں اس بات کو، بتائیے میں کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ “
”کمال کرتے ہیں آپ بھی“ وہ مسکرائی۔ ”مجھے آپ سے کوئی کام نہیں ہے۔ میں تو آپ سے ملنا چاہتی تھی، آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ آپ کو پتا بھی ہے کہ میں آپ کی فین نمبر ون ہوں“۔

”سن کر بہت اچھا لگا“۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دل مسرت سے لب ریز ہو رہا تھا۔ اگر ایک انتہائی دل کش لڑکی آپ سے اس قدر عقیدت کا اظہار کر رہی ہو تو یقیناً بے پایاں مسرت ہوتی ہے۔ اس کے بعد باتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ باتوں کے دوران میں نے اسد صاحب کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات بڑے نمایاں تھے۔ شاید اسی لیے انہوں نے چائے منگا لی کہ چائے پی کر وہ لڑکی چلی جائے گی مگر ان کا خیال غلط تھا۔ اس لڑکی کا ابھی رخصت ہونے کا ارادہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔

میں نے آپ کو اس کا نام تو بتایا ہی نہیں۔ اس لڑکی کا نام آبگینہ تھا۔ اس سے پہلے کہ اسد صاحب کچھ کہتے میں نے خود ہی آبگینہ سے کہا کہ مجھے آج بہت کام کرنا ہے تو کیوں ناں میرے کیبن میں چل کر بیٹھیں۔ یہاں چیف ایڈیٹر صاحب بھی ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر میں ساتھ ساتھ کچھ کام بھی نبٹا لوں گا۔ اسے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ میرے کیبن میں آ کر بیٹھی تو میں نے اطمینان کی سانس لی۔ کیوں کہ اب کھل کر بات کی جا سکتی تھی۔

حقیقت یہ تھی میرا بھی دل نہیں چاہتا تھا کہ یہ ملاقات فوراً ختم ہو جائے۔ وہ میرے بارے میں بہت کچھ جانتی تھی۔ اسے ہر بات تاریخوں کے ساتھ یاد تھی۔ میں کس دن کہاں مشاعرے میں شریک ہوا اور اس میں کون سی غزل پڑھی۔ کس دن میری کوئی تحریر کس رسالے میں چھپی۔ ایک انٹرویو بھی بغیر تصویر کے چھپا تھا۔ اس میں، میں نے جو باتیں کی تھیں اسے لفظ بہ لفظ یاد تھیں۔

بہرحال ملاقات ختم ہوئی تو میں اسے رخصت کرنے کے لیے باہر تک آیا۔ یہ نوے کی دہائی تھی اور باہر سڑک پر اس کی نئے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا کار کھڑی تھی۔ جیسے ہی اس کے ڈرائیور نے ہمیں دیکھا وہ فوراً گاڑی سے باہر نکلا اور بڑے احترام سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ آبگینہ نے مجھے خدا حافظ کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی روانہ ہوئی اور میں واپس دفتر میں آیا تو اسد صاحب کی بیزاری کچھ کم ہو چکی تھی۔

”یار وصی ابھی تو ایک ہے۔ اگر یہاں تمہاری کچھ اور فینز بھی آنے لگیں تو تم انہیں چائے کافی پلانے جوگے ہی رہ جاؤ گے۔ میرے تو کام سے گئے“۔ اسد صاحب نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔

”اجی چھوڑیے اسد صاحب! آپ بہار کی آمد پر منہ بنا رہے ہیں۔ دیکھا نہیں کیسے آپ کا دفتر مہک رہا تھا اور آپ اسے پھر بدبو دار بنانے پر تلے ہیں“۔ میں نے شوخ لہجے میں کہا۔

”تو آؤ تم بھی اس کارِ خیر میں شامل ہو جاؤ“۔ اسد صاحب نے برا مانے بغیر پیکٹ میری طرف بڑھا دیا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مجھے اس سے پہلی نظر میں محبت ہو گئی تھی۔ میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ مجھے اس سے محبت نہیں ہوئی تھی۔ بس کچھ تھا۔ جسے میں خود بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ وہ ایک زمیندار کی بیٹی تھی۔ ان دنوں موبائل فون بھی نہیں تھے۔ آبگینہ نے آیندہ ہفتے ملنے کا وعدہ لیا تھا۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم باہر بھی ملنے لگے تھے۔ اب ہم میں خاصی بے تکلفی پیدا ہو چکی تھی۔ ایک کافی ہاؤس میں ملاقات کے دوران میں اچانک آبگینہ بے حد سنجیدہ ہو گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments