کیا زندگی کو ہم نے مشکل نہیں بنایا ہے


جب سے کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے۔ زندگی جیسے سہم سی گئی ہے۔ ایک فکر اور خاموشی کا احساس پورے ماحول کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس احساس میں کچھ اضافہ آج کل میڈیا پر صبح و شام وبا کی خبروں اور اس سے متاثر ہونے والے انسانوں کی بے بسی سے بھی ہوتا ہے۔ چند دن پہلے مجھے اپنے ایک بہت ہی پیارے استاد جناب قاضی یوسف صاحب کی اس دنیا سے رخصت ہونے کی خبر ملی۔ اس خبر نے مجھے بہت اداس کر دیا۔ مجھے قاضی یوسف صاحب کی صحیح عمر کا تو اندازہ نہیں۔ لیکن وہ بہت عمر رسیدہ یقیناً نہیں تھے اور کچھ ہی دن پہلے تک کافی صحتمند اور زندگی سے بھر پور دکھائی دیتے تھے۔

کئی سال پہلے جب میں خیبر میڈیکل کالج میں پہلے سال کی طالبہ تھی۔ قاضی یوسف صاحب ہمیں فزیالوجی پڑھایا کرتے تھے۔ انتہائی خوش مزاج انسان تھے۔ جب انسانی دل کی فزیالوجی پڑھاتے تو بہت مزہ آتا کیونکہ وہ اس میں کچھ اپنا مزاح اور کچھ شاعری شامل کرتے اور اس خشک لیکچر کو بہت دلچسپ بنا لیتے۔ وہ دل کے والوز کے ساتھ جڑے باریک مسل فائبرز کو دل کے تار کہتے۔ اور ہارٹ فزیالوجی کو مزاحیہ رومانٹک انداز میں بہت آسان بنا دیتے۔ چند ہی ہفتے پہلے وہ مجھے اچانک فیس بک پر مل گئے۔ میں نے سلام دعا کے بعد ان کو ان کے رومانوی زبان، شاعری، اور مزاح سے بھرپور لیکچر یاد دلائے۔ تو ہنس کر کہنے لگے، شاگردوں کو سمجھانے کا کوئی طریقہ تو استعمال کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ ایک آدھ مرتبہ پھر سلام دعا ہوئی۔ جس کے بعد زندگی کی مصروفیات کی وجہ سے ان سے رابطہ منقطع رہا۔ اور پھر اچانک ان کی اس دنیا سے کوچ کر جانے کی خبر نے جیسے جھنجھوڑ دیا۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ انہی قاضی یوسف صاحب کی وفات کی خبر ہے جن سے میں کچھ ہی دن پہلے بات کر رہی تھی۔

چند دوستوں سے معلوم ہوا کہ ملک میں وبا اور اس کی بدولت لوگوں کو ایک جگہ اکٹھے ہونے پر پابندی کی وجہ سے ان کے جنازے میں شرکت کے لئے بہت کم لوگ آسکے۔ جبکہ مجھے ان کی دوستانہ طبیعت، اور ان کی لوگوں میں پسندیدگی کا بخوبی اندازہ ہے۔ اور زندگی معمول کے مطابق ہونے کی صورت میں ان کی تعزیت اور جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ بھی اچھی طرح سے لگا سکتی ہوں۔

پچھلے دنوں جب میں پاکستان جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ تو میری ایک قریبی دوست نے مجھے اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کی دعوت دی جو کہ انہی دنوں میں ہونے والی تھی جب میں پاکستان میں ہوتی۔ لیکن پھر کچھ ہی دنوں میں کرونا وائرس کی وبا اتنی تیزی سے دنیا بھر میں پھیلنے لگی کہ ساری فلائٹس کینسل ہو گئیں اور بارڈرز بند کردیے گئے اور اس طرح میرا پاکستان جانا بھی نہ ہو سکا۔ میری دوست نے پاکستان کی روایتی شادیوں کے انداز میں شادی کے بہت سارے انتظامات اور لوازمات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ دور دور سے بہت سارے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی۔ بڑے سے ہال میں بڑی دعوت، مہندی، بارات وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان غریب ملک سہی لیکن شادی بیاہ میں دل کھول کر خرچ کرنا ہماری روایت بن چکی ہے۔

بہرحال، کرونا وبا کی وجہ سے حالات کی تبدیلی نے اس شادی پر بھی اثر کیا۔ اور شادی کینسل کرنے کی بجائے اپنے قریبی خاندان کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے گھر میں کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ میری دوست نے سب بلائے گئے مہمانوں کو معذرت کے خطوط لکھے اور یوں وہ شادی نہایت سادگی سے اپنے گھر میں چند قریبی افراد کی موجودگی میں انجام پائی۔

میں سوچتی ہوں کہ اس وبا کے پھیلنے سے جہاں ہمیں تکلیف، دکھ اور ایک خوف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہاں ہمیں ایک سبق سیکھنے کو بھی مل رہا ہے۔ کہ زندگی اصل میں کس قدر سادہ ہے۔ اور ہم نے اس کو اپنے لئے مشکل اور پیچیدہ بنا رکھا ہے۔ ایک انسان کا جنازہ اور تدفین بھی بڑی سادگی سے ہو سکتی ہے اور ایک شادی بھی اتنی ہی سادگی سے ہو سکتی ہے۔

اپنی اس سوچ نے مجھے چند ہی ہفتے پہلے اپنے گھر میں کی گئی دوستوں اور رشتہ دار وں کی دعوت کی بھی یاد دلائی۔ جس میں بہت سارے مہمانوں نے شرکت کی۔ میرا گھر ایک کونے سے دوسرے تک مہمانوں سے بھرا تھا۔ اس دعوت کی تیاری میں میرا بہت سارا وقت لگا اور کھانے کی تیاری میں اچھی خاصی محنت کرنی پڑی۔ اس سے انکار نہیں کہ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنا یقیناً ایک خوش قسمتی کی علامت ہے۔ لیکن میں اس بات کو بھی مانتی ہوں کہ کئی ایسی دعوتیں ہم ایک روایتی انداز کو قائم رکھنے کے لئے کرتے ہیں۔ کئی دفعہ اس میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جانے کی کوشش کا دخل ہوتا ہے۔ اور ہم مانیں یا نہ مانیں لاشعوری طور پر دوسروں کو امپریس کرنے کی ایک دبی خواہش بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔

میں یہ سوچتی رہی کہ جب زندگی کی اصل حقیقت مشکل حالات میں سامنے آتی ہے۔ جیسے کہ اس وبا کے دنوں میں، تو معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا کاروبار بند ہونے پر انسانی زندگی پر اصل معنوں میں کیا اثر پڑتا ہے۔ کتنی ساری چیزیں اسراف اور غیر ضروری لگتی ہیں۔ ہمیں ان لوگوں پر بھی غور کرنے کا موقع ملتا ہے جو روز کے روز چند روپے کماتے ہیں اور اس سے اپنی دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔ اب جب وبا کے دنوں میں ان کی کمائی کے ذرائع بند ہو گئے تو ان کا کیا حال ہو رہا ہے۔

ہم ان بڑی بڑی دعوتوں میں جتنا خرچ کرتے ہیں وہ ایسے غریب انسانوں کی مہینوں کے کھانے پینے کے برابر ہوتا ہے۔ ہم مصروف زندگی کی دوڑ میں کبھی رک کر ان باتوں پر مشکل ہی سے سوچتے ہیں۔ وبا کے دنوں نے ہمیں اپنے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنے کا موقع دیا ہے۔ اور اپنی اندر کی سچائی پر غور کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم زندگی کے کتنے قیمتی لمحات، توانائی اور پیسہ بے معنی کاموں میں لگا لیتے ہیں، صرف اپنی جھوٹی انا کو سکون پہنچانے کے لئے۔ یہ مشکل وقت ہمیں اگر بہت نہیں تو کچھ حد تک تو جھنجھوڑ رہا ہے۔ سچ ہے کہ ہر برائی میں کچھ اچھائی ضرور پنہاں ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments