نوشین کا قتل: یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا


آدھی رات کو صائمہ ملک کا نمبر میرے موبائل کی سکرین پہ جگمگایا تو مجھے حیرت ہوئی۔ صائمہ کے تیسرے شکوے کے بعد میں نے اس کا نمبر اپنے موبائل میں سیو کیا تھا۔ صائمہ ایک خاتون صحافی تھی جو کسی این جی او کی رجسٹریشن کے سلسلے میں میرے دفتر آئی تھی۔ دوسری دفعہ آئی تو شکوہ کیا سر! آپ تو میری کال ہی اٹینڈ نہیں کرتے۔ وبا کے دنوں میں مصروفیت بڑھی تو کیا دن اور کیا رات کرونا کا امتحان ہے اور ہم۔ ساری روٹین ڈسٹرب ہوئی تو صائمہ کا کام بھی نہ ہو سکا۔

چند دن ہوئے صائمہ اپنی کسی کو لیگ کے ساتھ پھر حاضر۔ سر! میرا نمبر ہی سیو کر لیں، وعدہ رہا میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کروں گی۔ سو صائمہ ملک میرے موبائل کنٹیکٹس میں ایڈ ہو گئی۔ صائمہ کی فائل منگوائی تو معلوم ہوا صائمہ عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرتی ہے اور اپنی این جی او رجسٹر کروانا چاہتی ہے۔ میڈم! اتنی ساری این جی اوز کے ہوتے آپ نے کون سا تیر مار لینا ہے؟ نہیں سر! ہمارے وسیب کی عورت بہت مظلوم ہے، جاگیردارنہ وسیب میں، میں عورت کی آواز بننا چاہتی ہوں، میں انہیں آنر کلنگ سے بچانا چاہتی ہوں۔ صائمہ کی کمٹمنٹ اور اس کے لہجے کا اتار چڑھاؤ اس کی سچ کی گواہی دے رہا تھا۔

سر! ایک مسئلہ بھی آپ سے ڈسکس کرنا تھا، سر وہ ایک لڑکی کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔

تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ 23 سالہ نوشین کی اپنے خاوند سے نہیں بنتی اور وہ بھاگ کر دارالامان آگئی ہے اور اب خلع کے لئے کیس دائر کرنا چاہتی ہے۔ صائمہ کے بقول نوشین کے گھر والوں نے اس کے جاننے والوں پہ الزام عائد کیا ہے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

نہ صائمہ کی سٹوری کا کوئی سر پیر، نہ اتنی مصروفیت میں میرے پاس وقت کہ نوشین کی کہانی میں دلچسپی لے سکوں، سو اسے پولیس کا رستہ دکھا کر روانہ کیا اور پھر وہی میٹنگز وہی وزٹس وہی، فائیلیں اور دن رات کا چکر نہ مجھے صائمہ یاد رہی نا نوشین۔

اب آدھی رات کو صائمہ کا فون؟ کال اٹینڈ نہیں کی کہ کل کام کر کے بتا دوں گا۔ فوراً میسج جگمگایا، سر! ایمرجنسی ہے۔ بات ہوئی تو صائمہ کی سسکیاں، آواز میں کپکپاہٹ، پریشان ہو کر پوچھا میڈم خیریت؟ بات کریں پلیز۔ سر! نوشین قتل ہو گئی۔ کیا؟ نوشین قتل ہو گئی؟ میرا دماغ شل ہو گیا۔ صائمہ کی سسکیاں مرے وجود کو ریزہ ریزہ کرنے لگیں۔ سر! ان لوگوں نے اس معصوم کو مار دیا، سر! ظلم ہوا نوشین کے ساتھ، اسے دو گولیاں ماری گئیں، ایک سینے میں، ایک سر میں۔

میرے اندراس سے آگے سننے کا حوصلہ نہ تھا، میرا ذہن ماؤف اور سارا وجود شدید غصے سے لرزاں ہے، مجھے نہیں معلوم نشتر ہاسپٹل کے پوسٹ مارٹم وارڈ میں نوشین کے کتنے ٹکڑے ہوئے، حوا کی معصوم کلی کا جنازہ بھی ہوا یا یا تکبیر کی آواز غیرت مند مردوں کے فاتحانہ نعروں میں کہیں دب کر رہ گئی۔ وبا کے موسم میں شہید نوشین کو کوئی غسل دینے بھی آیا کہ نہیں مجھے نہیں معلوم، پولیس کا کون سا تفتیشی نوشین کے خون کا سودا کتنے میں کرے گا، نہ میں یہ جانتا ہوں کہ جرم کا احساس میری کتنی نیندیں حرام کرے گا کیونکہ میں بھی نبی رحمتؐ کے دور سے پہلے کے وحشی انسانوں کے دور کا حصہ ہوں۔

وبا کا موسم میرے شہروں کو ملیامیٹ کیوں نہ کرے، آسمان سے اترے عذاب میری بستیاں تاراج کیوں نہ کریں؟ پینتالیس لاکھ کی آبادی کے شہر سے بستی وینس ملتان کی نوشین انصاف طلب ہے۔ کوئی ہے جو خون خاک نشیناں کو رزق خاک ہونے سے بچائے؟

نوٹ: شناخت محفوظ رکھنے کے لیے اطلاع دہندہ کا فرضی نام استعمال کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments