پاکستان میں معاشی سرگرمی زندگی سے ممکن ہے



دنیا میں کورونا کی وبا پھوٹ پڑی ہے، ہمارے ہاں لفظ ”قیامت“ مذہبی معنی میں لیا جاتا ہے، لیکن یہ وبا ان سب کے لئے قیامت بن کر آئی ہے، جو اس میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ 209 ممالک میں یہ تحریر کرتے وقت فجر 11 اپریل 2020 ع کو دنیا میں کورونا وائرس کے کل کیسز کی تعداد 16 لاکھ 94 ہزار 944 ہوچکی ہے ان میں تین لاکھ 75 ہزار 595 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ کورونا وائرس میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 514 ہوچکی ہے۔

ان اعداد و شمار کے تحت کورونا وائرس کے انفیکشن میں مبتلا لوگوں کی فعال تعداد بارہ لاکھ سولہ ہزار 835 ہے جبکہ 4 لاکھ 71 ہزار 109 کے کیسز بند کیے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 96 فیصد یا گیارہ لاکھ ساٹھ ہزار ا 12 افراد کو درمیانے درجہ کا انفکشن ہے جبکہ 49803 ایس لوگوں کو خطرناک انفیکشن ہے۔ صحت مند ہونے والے لوگوں کی تعداد 79 فیصد ہے جبکہ جاں بحق ہونے والوں کی فیصد 21 بنتی ہے۔

جاں بحق ہونے والے لوگوں کی تعداد اور مریضوں کا تعلق ترتیب وار امریکا 18 ہزار 585، اٹلی 18 ہزار 849 اسپین 16 ہزار فرانس 13170، برطانیہ 8958، ایران 4230 ترکی 1006 بیلجم 3019 سوئٹزرلینڈ 1002 نیدرلینڈ یا ہالینڈ 2511، برازیل 1057 کینیڈا 556 اور پورچوگال 435، آسٹریا 319 سویڈن 870، آئرلینڈ 287، انڈیا 246 پولینڈ 181 ڈنمارک 247 رومانیہ 270 فلپائن 221 انڈونیشیا 306 میکسیکو 194 یونان 92، مراکش 107 بنگلادیش 27 پاکستان 67 اور جاپان 99 شامل ہے۔

باقی باتیں شروع کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کے ملک بھرکے اور دنیا بھر کے تمام ڈاکٹرز، پروفیسر اور نرسنگ نرسنگ اسٹاف خواتین و مرد نرس کو سلام پیش کرتے رہنا چاہیے، جنہوں نے ایک جانب اپنے گھر بار اور خاندانی چنتا کو نظر انداز کیا اور اسی جوش و جذبے سے ہسپتالوں میں جاکر کورونا وائرس سے زخمی افراد کا علاج کیا، ان کے ساتھ رہے اور ان کی ہمت بندھائی اور بہت سارے لوگوں کو سلامت اپنے گھروں میں واپس بھیجا۔ ان میں سے کئی ڈاکٹرز اور نرسز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

آج کے دور کی سب سے بڑی اور خطرناک جنگ میں یہ سب کے ہیروز ہیں اور یہ تا ابد یاد رکھے جائیں گے۔ ایک نکتے کے طور پر آپ اس رویے کو انتہائی مثبت رجحان اور انسان دوستی اور بین الاقوامیت پسندی کو نئے رجحان کے طور پر یاد رکھیں۔ اس کے ساتھ دنیا بھر میں جو بھی نئے رجحانات پیدا ہوں گے، وہ سب کورونا کے گرد سفر کریں گے۔ مثبت بھی منفی بھی۔ دنیا کے لوگ ان سے تعلق کی بنا پر نئی کہانیاں بنائیں گے، نئے ہیروز بنیں گے، نئے ممالک بنیں گے۔ آپ اس رجحان کو بعد از کورونا مثبت رجحان نمبر 2 کا نام دے سکتے ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکا، برطانیہ، اٹلی، اسپین، آسٹریلیا، نیدرلینڈ، سوئیڈن، سوئٹزرلینڈ کے اندر ایک نیا منفی رجحان پیدا ہو رہا ہے وہ ہے چین مخالف رجحان۔ ہم اس رجحان کو بعد از کورونا منفی رجحان نمبر ایک کا نام دیں گے۔ اس رجحان کا مطلب اس شکست کو چھپانا ہے، جو ترقی یافتہ ممالک کے شعبہ صحت کو ملی ہے۔ دراصل، ان ممالک نے پرائمری یا ابتدائی صحت اور بڑی بیماریوں کی ایک بڑی تعداد کو زیر کردیا تھا، لیکن ان میں اچانک پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی تربیت اور ماحول نہیں تھا۔ چین سے نفرت کا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا کے ساڑھے 7 ارب لوگوں میں دراڑ بھی موجود رہے، اور دنیا کے 1 ارب 40 کروڑ لوگوں کے لئے مشکل صورتحال بھی پیدا کی جائے۔ یہ انگریز کلچر ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی نئی شکل ہوگی۔ چین ایک طرف دنیا دوسری طرف۔

اس رجحان کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے آشکار ہوگئی کہ اب ترقی یافتہ ممالک جس میں خاص طور پر سرمایہ دارانہ نظام اپنی عروج کی منازل طے کرتا ہوا تھک چکا ہے، اس میں جاں بحق ہونے والے ہزاروں لوگوں کے لاکھوں لواحقین اور متعلقہ افراد لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کریں گے کے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک (اب) غریب ممالک میں سستی محنت کے چکر میں اپنے عوام کو موت کے منہ میں پھینکنے سے اجتناب کریں اور اپنے اندر خود انحصاری پیدا کرکے ایمرجنسی حالات میں ہنگامی ضروریات پوری کرنے کا سامان پیدا کرنے کا رواج پیدا کیا جائے۔

سرمایہ دارانہ سماج میں خود انحصاری کا یہ مطالبہ سرمایہ دارانہ سماج کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک بن سکتا ہے اور اس خود انحصاری کی وجہ سے ایک جانب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہنگامی حالات میں بڑے مصائب سے بچ جائیں گے اور سستی محنت کا شکار دنیا بھر کا عوام بچ جائیں گے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ کم ترقی یافتہ یا پسماندہ ممالک کے عوام بہت بڑے گھاٹے میں پڑ جائیں گے اور ان کے وسائل کم ہوتے جائیں گے۔

پاکستان میں وبا کی صورتحال کس کروٹ بیٹھے گی؟ یہ جواب آنے والے دنوں میں ٹیسٹ کے نتائج پر مل جائے گا۔ ملک کے وزیراعظم عمران خان کورونا وائرس کی ممکنہ تباہ کاریوں کے سلسلے میں (شاید) وہ خطرات نہیں بھانپ رہے، جو باقی دنیا کے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسی برس نومبر کے آخر میں عام انتخابات کی تیاری اور الیکشنی نعرے کے طور پر لاک ڈاؤن کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں الیکشن کا نہ سال ہے نہ ماحول ہے، ایسے میں، بعض اوقات محسوس ہوتا ہے، جیسے حکمران تحریک انصاف کسی بھی ”اقتداری حادثے“ کے پیش نظر غریب لوگوں کی ”زندگی“ کے بجائے ”بزنس سرگرمی“ کو اولین سمجھتے ہیں۔ تاکہ اپنے بارے میں لوگوں کو پھر بھی کچھ بتانے کی حالت میں رہ سکے۔

وقت آگیا ہے کہ، پاکستانی حکومتیں بھی اس وبا کے دنوں میں محض نعرہ نہیں عملی طور پر ایک نیا امکان اور سامان پیدا کریں۔ ترجیحی بنیادوں پر ملک کے تمام طبقات کے حقیقی اعداد و شمار بنائیں۔ پورے ملک کو لاک ڈاؤن کرکے پسماندہ اور بے پہنچ لوگوں کے جینے کا سامان مہیا اور فراہم کریں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہونی چاہیے کہ عوام کو کورونا وبا سے احتیاط جیسی سستی چیز پر آمادہ کریں۔

اگر پاکستان میں کورونا وائرس سے احتیاط کے بارے میں لاتعلقی اختیار کی گئی، لوگوں کو موت کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا، اور جاں بحق ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی، زندہ رہنا مشکل بنادیا گیا تو پاکستان میں ایسی فضا اور ایسے ماحول کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی بھی راستہ ملنا مشکل ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments