مورخ اگر زندہ رہا تو۔۔۔۔


تاریخ بتاتی ہے کہ جب ایک طرف حجاز میں ترکی کے فوجیوں کے سر قلم کیے جارہے تھے تو دوسری جانب کے مسلمان نور و بشر میں الجھے ہوئے تھے۔ تاریخ انسانی نے یہ بھی دیکھا کہ جب ایک جانب منگولوں نے بغداد کو تاراج کرنے کے لیے فیصلہ کرلیا تو دوسری جانب کوا حلال ہے یا حرام پر لاحاصل بحث کی جارہی تھی۔ یہ تو سب تاریخی پہلو ہیں اور تاریخ جانتی ہے یہ ہم ہی تو تھے جو ہمشہ خود کو مذہبی معاملات اور لاحاصل مسائل میں پھنسا کر اپنے اردگرد کے حالات سے آنکھیں بند کیے رہے۔

ایسا ہی آنے والے وقت میں مورخین ہمارے بارے میں لکھیں گے کہ جس وقت دنیا میں کرونا ایک عالمی وبائی مرض بن کر اپنے پنجے گاڑ رہا تھا ہم اس بحث میں مصروف تھے کہ یہ وائرس حرام جانور کا گوشت کھانے سے انسان میں منتقل ہوا ہے یاپھر یہ کسی لیبارٹری میں تیارکردہ کوئی بائیولوجیکل حملہ ہے۔ مورخ یہ بھی تو لکھے گا کہ جس وقت مرض ہمارے درمیان پہنچ گیا تھا تو دنیا بھر کے ماہرین صحت ہمیں احتیاطی تدابیر بتا رہے تھے اور ہم اس بحث میں شریک تھے کہ مرض زائرین لائے یا تبلیغی؟

اور صرف عوام ہی نہیں بلکہ ہمارے خواص بھی اس بحث میں مصروف دکھائی دیے کہ آئیے دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں زیادہ مستعدی سے کام کر رہی ہیں یا وفاقی حکومت۔ دنیا کی معیشت کا پہیہ رک گیا، افراتفری اور انتشار پھیلنے کا خطرہ پید اہوگیا، دنیا کا سپر پاور یہ کہنے لگا کہ اگر ہمارے ملک میں ایک لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں تو یہ ہماری کامیابی ہوگی کیونکہ ماہرین صحت تو نمبر بیس لاکھ بتارہے ہیں۔ دنیا مرض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنا رہی تھی اور ہم آپس میں دست و گریبان تھے۔

ہماری حکومتی سطح پر بحث یہ تھی کہ لاک ڈاؤن کرنا چاہیے یا نہیں اور عوامی سطح پر کرونا کے ساتھ اجتماعی مذاق کیا جا رہا تھا، اور لاک ڈاؤن کے بعد لاک ڈاؤن کی بھی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والے بھی ہم ہی تھے۔ مگر مورخ یہ سب لکھے گا تو تب جب زندہ رہے گا۔ جس قدر لاپرواہی اس وبائی مرض کو لے کر ہم کرسکتے تھے من حیث القوم ہم سب نے مل کر کی۔ خدا کرے ایسا نہ ہو مگراس وقت تک دنیا بھر میں کرونا کے سبب ہونے والی تباہی، مریضوں کی تعداد اور شرح اموات کے اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کرونا کو سنجیدہ نہ لے کر بہت بڑی غلطی کررہے ہیں۔

پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد یقیناً تشویشناک ہے اور سندھ میں 11، اپریل کو کرونا کے مثبت نتائج بیس فیصد تھے اور یہ ٖ ایک غیر معمولی شرح ہے۔ جس کو روکنا نہایت ضروری ہے۔ حکومت سندھ جس کمال پھرتی سے ہر جمعہ کونماز جمعہ کے اجتماعات روکنے کے لیے لاک ڈاؤن میں دن 12 بجے سے دوپہر 3 بجے تک سختی کرتی ہے اگر کا ش وہ پور اہفتہ جاری رکھی جاتی تو شاید بیس فیصد مثبت نتائج میں کمی نظر آتی مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ عوام کرونا کو مذاق سمجھ رہے ہیں اور حکومت لاک ڈاؤن کو۔

یقیناً نماز جمعہ کے لیے مساجد میں اذن عام نہ دینا بحثیت مسلمان حکومت و عوام سب کے لیے انتہائی دکھ اور کرب کا فیصلہ ہوتا ہے مگر کرونا کی روک تھام کے لیے سماجی فاصلہ نہایت اہم ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں مکمل سختی کیوں نہیں کی گئی؟ ہماری عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے، مارکیٹیں اور صنعتیں سب بند ہونے کے باوجود اگر ہم کرونا کو روکنے میں ناکام ہیں تو یقیناً یہ گھاٹے کا سودا ہوگا اور اس کا مقصد یہ ہوا کہ ہمیں لاک ڈاؤن کے مکمل فوائد حاصل نہیں ہورہے۔

اگر اس ساری صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو فوائد نہ ملنے کی واحد وجہ تو لوگوں کی غیر سنجیدگی ہی سمجھ آتی ہے جبکہ ایک اور وجہ مکمل لاک ڈاؤن پر سختی کے بجائے محض ہر جمعہ کونماز جمعہ کے اجتماعات روکنے کے لیے لاک ڈاؤن میں دن 12 بجے سے دوپہر 3 بجے تک سختی کرناے سے بھی روگردانی ممکن نہیں، کیونکہ اگر مقصد لوگوں کو کرونا سے بچانا ہے تو کرونا چوبیس گھنٹے خطرہ بن کر منڈلارہا ہے اس لیے حکومت کو فوری طور پر لاک ڈاؤن پر مکمل عمل کرانا ہوگا وگر نہ کرونا کو روکنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔

چلیں اگر حکومت لاک ڈاؤن پر سختی نہیں کرتی تو عوام کو سمجھنا چاہیے کہ کرونا کا کوئی علاج نہیں ہے صرف احتیاط ہی زندکی کی ضمانت ہے اور لاپرواہی بہت نقصان دے سکتی ہے۔ اور جو لوگ کرونا کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اللہ پر توکل کی بات کرتے ہیں ان کی خدمت میں مودبانہ گزارش ہے کہ اللہ عزوجل نے ہی اپنی زندگی کو خطرہ میں نہ ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ حکومت کو بھی لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کروانا چاہیے کیونکہ جب مساجد میں عام جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی گئی، صنعتوں کے پہیے کو روک دیا تما م معاشی سرگرمیاں معطل کردی گئی تو عوام کو سڑکوں پر آنے سے بھی روکا جائے نا مانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اگر ایسا نہیں کرسکتے تھے تو پھر معیشت کو چلنے دیتے جس نے مرنا تھا مرجاتا جس کی زندگی تھی بچ جاتا کیونکہ اگر معیشت بھی نہ چلی اور کرونا بھی نہ روک سکے تو آنے والے مورخین ہمارے بارے میں لکھیں گے کہ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ اس لیے خدارا کروناکو سنجیدگی سے لیں اور سماجی فاصلہ کو ہر ممکن قائم رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments