کیا بیچے ہوئے چورن آج ہمیں بچا سکتے ہیں؟


موجودہ دنیاوی صورتحال کا مذہبی جائزہ لیا جائے یا سائنسی بہر صورت جواب ایک ہی ہے ”کرونا جیسی وبا کا ذمہ دار خود انسان“

اقوامِ متحدہ سمیت دیگر ماحولیاتی تحفظ کے ادارے چیخ چیخ کے پکارتے رہے کہ خدارا ماحولیات کو تحفظ دیا جائے۔ آگاہی دیتے رہے کہ سرمائے کے پھیلاؤ کا یہ عمل قدرت کی ہر زندہ اور جاوید تخلیقات کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ بہت سے جانوروں کی نسلیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ آبی حیات مر رہی ہے۔ آکسیجن تیزی سے متاثر ہو رہی ہے۔ اوزون تہہ بتدریج پھٹ رہی ہے۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ جو بڑے بڑے سیلابوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

جنگلات ختم ہورہے ہیں۔ بارش کا نظام متاثر ہو چکا ہے۔ قحط سالی پنجے گاڑھے چلی جا رہی ہے ِ مگر سرمائے کے تسلط کا نشہ اور سرمائے کی بڑھوتی اندوہناک حد تک ان تمام حقائق کو نظر انداز کیے قدرت کی ہر تخلیق کو تباہ کرنے کے در پہ لگے رہے ِ فیکٹریوں سے نکلنے والی آلودگی، ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہے رجحانات، شور، جنگ و جدل، درختوں اور جنگلات کی تباہی وغیرہ وغیرہ کچھ بھی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

یہ سرمایہ خود ہوش و ہواس یا سوچ نہیں رکھتا۔ یہ انسان ہی کی پیدا کردہ وہ جنس ہے جو قدرت کی بنائی ہوئی ہر چیز پر قادر اور غالب ہو گیا اور حتی کہ انسان پر بھی۔ WHO نے کافی پہلے ہی ان حالات کو دیکھتے ہوئے پیشن گوئی کردی تھی کہ گرتی ہوئی انسانی صحت اور بدلتی ہوئی بیماریوں کے باعث وقت کے ساتھ انسان اسہال اور زکام جیسی معمولی بیماریوں سے موت کے گھاٹ اترنے لگے گا۔ آج یہ ثابت ہے کہ۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث معمولی بیماریاں پہلے سے زیادہ گمبھیر اشکال اختیار کرتی جا رہی ہیں اور غذائی قلت کی وجہ سے دگرگوں ہوتی انسانی صحت کے مقابل زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ ہی وہ گمبھیر اشکال ہیں جو روٹا وائرس، سارس وائرس اور اب کرونا وائرس بن کے جان لیوا ثابت ہورہی ہیں۔

سرمائے کے تسلط کی خاطر انسان نے قدرت کی ہر تخلیق کو نقصان پہنچایا ہے۔ سرمائے کی بڑھوتی اور طاقت کے جنون میں انسان نے انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر سرمائے کے تحفظ اور راج کی خاطر کئی چورن تیار کیے ۔ یہ چورن کبھی سیاسی ہوتے اور کبھی مذہبی، نسلی، لسانی اور دفاعی بنیادوں پر تیار کیے جاتے۔ یہ چورن سادہ لوح اقوام و عوام میں ان کی جان کی قیمت پر مہنگے داموں بیچے گئے ِ ان چورنوں کو بیچ بیچ کر عوام کے ذہنوں کو متعصب انداز میں پراگندہ کیا گیا اور ان چورنوں کو بیچنے کا پروپیگنڈہ اس قدر گہرا اور مضبوط ہے کہ جو چند لوگ بھی ان کی حقیقت عیاں کرنے میدان میں اترتے عوام ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور استبدادی قوتیں ان افراد کے نام و نشان تک مٹا دیتی ہیں۔

تاریخ گواہ رہی ہے کہ ہر مذہب اپنے وقت کا ایک انقلابی نظریہ ہوتا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی ملائیت خواہ کسی بھی مذہب میں ہو، طاقت اور تسلط کی خاطر استبدادی قوتوں کا آلہ کار بن کر بالواسطہ یا بلاواسطہ ان قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے لگتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج جب دنیا کا چپا چپا ایک نا دیدہ بیماری کے ہاتھوں یرغمال ہے، ان تمام چورنوں سے کمائی جانے والی دولت، جمع کیا ہوا سرمایہ اور ہتھیار کیا اس کرونا نام کی نادیدہ قوت کو ہرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

کیا شیعہ سنی، ہندو مسلمان، یہودی عیسائی نفرت کرونا کو مٹا سکتی ہے؟ جب بیماری اس تیزی سے لوگوں میں سرائیت کر رہی ہے اور پروڈکشن اور تجارت کا ہر عمل پوری دنیا میں تقریبا بند ہے تو اب جمع کی ہوئی اس دولت کا کیا جو ایک دن اشیائے ضروری تک بھی خریدنے کے کام نہ آسکے کہ وہ میسر ہی نہ ہوں گی؟ دنیا میں پھیلا ہوا سرمایہ جو چند کی ملکیت ہے ان چند کو بھی بچا پائے گا؟ دنیا کے ہر خطہ میں یہ وبا ہے تو کوئی بھلا بچ کے بھی کہاں جائے گا۔

دفاع کے نام پر لوٹی گئی قوم کی دولت جو ان کی صحت اور زندگی کا حق تھی آج اس آفت میں دفاع کرنے کے قابل ہے؟ کیا کوئی ایف سولہ اور ایٹم بم کرونا سے نجات دلا سکتے ہیں؟ وہ میڈیا جو حکمرانوں اور استبدادی قوتوں کے ہر غیر انسانی عمل اور اقدام کو ضمیر فروشی کے ساتھ سراہتے ہوئے آیا ہے آج اس وبا سے نجات کا کوئی راستہ نکال سکتا ہے؟

سائنسی سماج یہی بات کرتے آئے تھے کہ یوں ہی حالات رہے تو دنیا تباہی کے دہانے پر ہوگی اور معاشرے باربیرین ازم کی طرف چل پڑیں گے، بھوک و افلاس سے معاشرے انارکی کا شکار ہونے لگیں گے، لوٹ مار ہو گی، دھاوے بولیں جائیں گے اور پھر ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے لگیں۔ ان معاشروں کو دیمک کی طرح چاٹ کر آج تک یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ معاشرے ناکام ہو گئے ہیں مگر یہی ان کی کامیابی ہے کہ ان کی عدم موجودگی کے باعث نتیجتا ہونے والے حالات کے متعلق ان کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہی ہے۔

اب اگر مذہبی جائزہ لیا جائے تو بھی انسان کے مظالم اس کائنات پر اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وہ خدا کے نام پر بھی ظلم کی انتہا کرنے سے باز نہیں بلکہ طاقت کے حصول کی خاطر گمراہ کرنے کے لئے مذہب کو ہی اولین ذریعہ بنایا گیا ہے۔ تو اب قدرت بھڑک اٹھی ہے، اب انسان کے کرتوت ایک نادیدہ وائرس سے پیکار ہیں۔ اب کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں، کوئی مرد یا عورت نہیں کوئی کافر یا مسلمان۔ نہیں۔ سب کے ساتھ تمام قوانینِ قدرت کی طرح یہ وائرس یکساں برتاؤ کر رہا ہے۔

اب ذخیرہ اندوزی اور بد عنوانی سے جو کمایا وہ بھی کام نہیں آنے والا۔ یہ جو افلاس زدہ لوگ ہیں، طاقتور طبقات کے ہاتھوں پستے رہے ہیں، جب بے قابو ہوں گے تو لپک پڑیں گے۔ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اللّہ کے روکے ہوئے نظام کے آگے انسان چاہ کر بھی اپنے کارخآنے نہیں چلا پا رہا۔ مگر ایسے میں بھی عیار طبقات کو چین نہیں۔ وہ اب بھی چالبازیاں کر رہے ہیں۔ آج جس کے پاس جو ہے سو ہے مگر جب کل نہ ہوگا تو کیا ہوگا؟

جن کے پاس آج بھی نہیں وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں مگر کل جھپٹیں گے، ٹوٹیں گے اور لوٹیں گے تو کہاں رہ جائے گا طاقت کا غرور؟ افسوس یہ ہے کہ یہ کوئی انقلابی کیفیت نہیں ہوگیِ۔ یہ صرف ایک انتشاری کیفیت ہو گی جس کا نوالا ہر اچھا اور برا، خاص و عام بلا تخصیص بنے گا اور اگر حالات خدانخواستہ یہی رہے تو بات جھپٹنے اور لوٹنے سے آگے بھی بڑھ سکتی ہے۔ اب صرف پر خوف توبہ تلا سے کام نہیں چلنے والا۔ جناب عقل پکڑئیے۔ اپنا قبلا درست اور الو سیدھا کیجئے۔ مگر جناب حضرتِ انسان یہ سب کہاں سمجھیں گے۔ ہم تو اشرف الامخلوقات ہیں ہم تو اب بھی بحران میں بحران پیدا کریں گے۔ مذہبی اور لسانی منافرت، فرقہ واریت اور ضمیر فروشی نہیں چھوڑیں گے اور ان سب کا چورن بنا کے بیچنا تو بالکل نہیں چھوڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments