جب آپ نیوز چینل بند ہونے کی خبر سٹوڈیو میں پہنچی!


حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک نیشنل نیوز چینل کے ورکنگ سٹاف کی اس وقت کی پریشان حال تصویر گردش کررہی ہے جب دوران بلیٹن انہیں مالکان کی جانب سے احکامات موصول ہوئے کہ چینل کو ناگزیز وجوہات کی بناء پر فی الفور بند کیا جارہا ہے، جلدبازی کی یہ صورتحال کہ صرف چھ منٹ قبل ہی ای میل موصول ہوا اورآن ائیر نیوز بلیٹن بھی مکمل نہ ہوسکا۔ سب ہکا بکا ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، خاموش نگاہوں میں ہزاروں سوالات ہیں مگر کسی کے پاس ان سوالات کے جواب نہیں۔

پلک جھپکتے ہی ہزاروں ورکرز کو بے روزگار کردیا گیا۔ یہ تصویر ہمیشہ سے معاشی پریشانیوں میں مبتلا صحافتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی حقیقت کو بیاں کررہی ہے۔ تصویر میں موجود چہروں سے چھلکتی بے بسی، مستقبل کے مشکل دنوں کا خوف اور گھر والوں کے سوالات سب عیاں ہیں۔ وہ پریشان ہیں کہ گھر کس منہ سے جائیں گے، کیسے اپنے بچوں کے سکولوں کی فیس ادا کریں گے، کیسے کچن کا خرچہ پورا ہوگا۔

صحافت آسان شعبہ نہیں ہے۔ وابستہ لوگوں کے سر پر پہلی تلوار مالکان کی جانب سے لہرائی جاتی ہے۔ اگر آپ کا اوڑھنا بچھوناصحافت ہے تو پھر اپنے کیرئر میں کئی بار بے روزگاری کا مزا بھی چکھنا ہوگا۔ کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ گھر سے بن ٹھن کر، خوب تیارہوکر، آفس کے گیٹ پر پہنچتے ہیں تو وہیں سے فراغت کا لیٹر آپ کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ ایک صحافی کی نوکری کا ہردن اسی خوف میں گزرتا ہے کہ شاید آج میں اس آفس میں آخری دن ہے۔

موجودہ دور حکومت میں تو صحافت کو اور بھی مشکل بنا دیا گیا۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں اخبارات اور ٹی وی چینلز سے جس بڑی تعداد میں رپورٹرز، کیمرہ مین، سب ایڈیٹرز اور دیگر سٹاف کو نکالاگیا، اور کئی ادارے بند کئے گئے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن میں اس میں حکومت سے زیادہ ادارہ مالکان اور انتظامیہ کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ معاشی پریشانیوں میں گھر ہوا صحافی بھلا کیسے سچی اور کھری خبر نکال پائے گا، کاروباری طبقے کی شعبہ صحافت میں ”انٹری“ کے بعد حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔

ایسے مالکان صرف ذاتی مفاد کے لئے ادارے کھولتے ہیں۔ کاروبار اچھا چل پڑا تو ٹھیک ورنہ ٹھک سے بند کردیا۔ یہ سوچے بغیرکہ بے روزگار ہونے والوں کے گھر کا چولہا کیسے چلے گا۔ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کریں گے۔ آخر میں پستا صرف ورکر ہی ہے اور ان ورکرز کے لئے آواز کون اٹھائے گا۔ کیونکہ صحافیوں کی نام نہاد تنظیمیں اور لیڈرز کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ وہ مالکان کے مفادات کے لئے تو آواز اٹھاسکتے ہیں، احتجاج کرسکتے ہیں مگر صرف صحافت کو ذریعہ روزگار بنانے والے ورکرز کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتے،

مذکورہ نیوز چینل بھی ایک ایسے ہی بزنس ٹائیکون کی ملکیت تھا، جب ادارے نے منافع نہ دیا تو ایک لمحے میں کاروبار کو بند کر دیا۔ ایسے افراد کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کوئی ان سے جواب طلب نہیں کرسکتا کیونکہ جہاں خالصتاً صحافتی ادارے اپنے ورکرز کو نکال رہے ہیں وہاں ایک بزنس مین سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔

کئی ایسے بڑے ادارے بھی موجود ہیں جہاں کئی ماہ سے سٹاف کو تنخواہیں ادا نہیں کی جارہیں۔ لیکن چونکہ ایک پیشہ ور صحافی کے لئے کوئی دوسرا روزگار کا ذریعہ نہیں تو ہزاروں ورکرز صرف اسی آس پر ان اداروں سے جڑے ہوئے کہ شاید کبھی مالکان کو ان پر رحم آجائے اور ان کے حالات بھی بدل جائیں۔

دعا ہے کہ ان دوستوں کی یہ امید جلد یا بدیر بر آئے۔ اور ان کے مسائل ختم ہوجائیں۔ دعا ہے کہ حکومت کو ہی رحم آجائے اور ایسے افراد کے لئے کچھ کرنے کے عملی اقدامات بروئے کار لائے جائیں یا کوئی قانون بنا کر اس پر عملدرآمد ہی یقینی بنا لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments