پیر صاحب کرپٹ نہیں تھے


پیر پور کے لوگ نہایت سیدھے سادے تھے۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ ان پر خدا کے کسی نیک بندے کی نظر کرم ہو جائے تو مالی پریشانی، تنگ دستی، فصل کی بربادی، مقدمے بازی، جنات اور آسیب سے چھٹکارا، شادی بیاہ میں بندش، محبوب کی بے رخی، اور نزلے زکام سے لے کر کینسر جیسی بیماری تک سے ایک تعویذ یا دم انہیں نجات دے دیتا ہے۔ لیکن ان دنوں وہ کچھ پریشان تھے۔ فصل کو بے موسمی بارش مار گئی تھی اور عرصے سے پیر پور میں کسی پیر فقیر کا گزر نہیں ہوا تھا۔

ایسے میں اچانک ایک دن وہاں ایک مجذوب کی آمد ہوئی۔ اس نے گاؤں والوں کو خبر سنائی کہ اسے بشارت ہوئی ہے کہ جلد ہی پیر پور میں ایک ایسے مردِ باکمال کی آمد ہو گی جو ان کی زندگیاں تبدیل کر دے گا۔ ویسے تو اس کے دیے ہوئے تعویذ ہر پریشانی سے نجات دلائیں گے مگر اس کی خاص کرامت یہ ہو گی کہ وہ گاؤں سے چوری چکاری کا خاتمہ کرے گا اور جو اسے سچے دل سے پیر مانتے ہوئے اس کی خدمت کرے گا، اس کی نقدی اور زیور دگنے ہو جائیں گے۔ مجذوب کی یہ خبر سن کر گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

آخر ہفتے بھر بعد پیر پور میں حضرت پیر کرامت شاہ قادری سہروردی چشتی کی آمد باسعادت ہوئی۔ گاؤں کے چوہدری صاحب سے لے کر نمبردار تک انہیں اپنا مہمان بنانے کا خواہاں تھا لیکن انہوں نے سڑک کے قریب واقع بوٹا کمہار کے کچے کوٹھے میں قیام کو ترجیح دی۔ بوٹے نے اپنا گھر خالی کیا اور اقارب کے ہاں منتقل ہو گیا تاکہ پیر صاحب کو چلہ کاٹنے اور وظائف کے لیے درکار تنہائی میسر ہو سکے۔

گاؤں کے لوگ جوق در جوق ان کے پاس حاضری دینے لگے۔ وہ سب کی بات توجہ سے سنتے، تسلی حوصلہ دیتے، بیماری سے نجات کے تعویذ دیتے اور دم کرتے۔ لیکن گاؤں والوں کی سب سے زیادہ دلچسپی ان کی چوری چکاری ختم کرنے اور پیسے ڈبل کرنے کی کرامت میں تھی۔ ڈنگر چوروں نے ان کا نقصان بھی تو بہت کیا تھا۔ ایک دن بوٹا کمہار کی بیوی کے دو تولے زیورات پیر کرامت شاہ نے ہانڈی میں ڈالے اور اپنا وظیفہ مکمل کیا تو اگلی صبح وہ چار تولے کے ہو چکے تھے۔ اس کی بہن کے دیے ہوئے پیسے بھی ڈبل ہو گئے تو سارا گاؤں اپنی اپنی جمع پونجی اور زیورات لے کر ٹوٹ پڑا کہ ان پر بھی نظر کرم کی جائے۔

پیر صاحب کے خلیفہ کالے شاہ صاحب نے گاؤں والوں کو کہا کہ پیر صاحب اس کے لیے آسانی سے نہیں مانیں گے۔ یہ کرم وہ صرف ان افراد پر کرتے ہیں جو ان پر سچے دل سے یقین رکھیں اور اپنی خدمت سے انہیں خوش کر دیں۔ بوٹے کمہار نے جس بے لوثی سے اپنی کل متاع یعنی کچا کوٹھا پیر کرامت شاہ کی نذر کیا تھا، اس سے پیر صاحب خوش ہو گئے۔ ویسے بھی یہ عمل آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت جان مارنی پڑتی ہے اور جنات کو قابو کر کے ان سے یہ کام کروانا پڑتا ہے۔

گاؤں والوں نے بہت منت خوشامد کی تو کالے شاہ صاحب نے انہیں پیر کرامت شاہ کے حضور پیش کیا۔ پیر صاحب کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے اور ہاتھ میں تسبیح تیزی سے گھوم رہی تھی۔ انہوں نے گاؤں والوں کے کچھ کہے بغیر ہی انہیں لالچ نا کرنے پر ایک طویل خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ جس نے لالچ کیا اس کے کرم پھوٹے۔ جب ان کی بات ختم ہوئی تو گاؤں والوں کی نمائندگی کرتے ہوئے چوہدری مولا بخش نے ہاتھ باندھ کر ان سے گزارش کی کہ فصل تباہ ہونے سے گاؤں والے رل گئے ہیں، اب پیر صاحب ہی ان کی آخری امید ہیں۔

آخر پیر صاحب کا دل پسیج گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں تمہاری خاطر چالیس روز کا چلہ کاٹ لیتا ہوں۔ ہر روز صبح ایک کالا بکرا اور شام کو ایک کالا مرغا ہمارے خلیفہ کی نذر کرنا۔ جنات کو قابو کرنے کے لیے ان کا گوشت بھینٹ کرنا ضروری ہے۔ پھر وہ یہ کام کرنے کو راضی ہوں گے۔

اگلی صبح سے پیر صاحب کی خدمت میں کالا بکرا اور شام کو کالا دیسی مرغا پہنچنے لگا۔ کالے شاہ اسے ذبح کرتے، اسے بھونتے اور پیر صاحب کے حجرے میں جا کر رکھ دیتے تاکہ وہ جنات کو بھینٹ کیا جائے۔

پیر صاحب تو اپنا دیدار نہیں کرواتے تھے مگر لوگوں نے دیکھا کہ خلیفہ کالے شاہ کی صحت پر نمایاں اثر پڑ رہا ہے۔ جس وقت وہ پیر صاحب کے ساتھ آئے تھے تو کمزور اور مدقوق سے جسم کے مالک تھے مگر اب ان کی رنگت زرد سے سرخ ہو گئی تھی اور جسم بھی فربہ ہو رہا تھا۔ کالے شاہ نے بتایا کہ جنات ان سے خاص محبت کرتے ہیں اور ان کے لیے کشمیر سے سیب، چمن سے انگور اور بنگال سے ناریل لاتے ہیں۔ ایک دو مرتبہ انہوں نے کوئی بے موسمی پھل کسی بچے کو دیا تو گاؤں کے گنے چنے بدعقیدہ لوگ بھی ان کے معتقد ہو گئے۔

چالیسویں رات کو گاؤں والے یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ پیر صاحب کے حجرے سے شعلے اٹھ رہے ہیں۔ ایک دو لوگوں نے ادھر جانے کی کوشش کی تو مولوی صاحب نے روک دیا۔ کہنے لگے کہ حضرت پیر کرامت شاہ قادری سہروردی چشتی جنات کا وظیفہ کر رہے تھے، لگتا ہے کہ جنات قابو میں نہیں آئے اور وظیفہ الٹا پڑ گیا ہے، جو بھی جائے گا جنات کا شکار ہو جائے گا۔

اگلے دن حجرے سے دھواں اٹھنا بند ہوا تو گاؤں والے ڈرتے ڈرتے اس کے قریب پہنچے۔ جلے ہوئے دروازے سے انہوں نے اندر جھانکا اندر کچھ نہیں تھا۔ نا پیر صاحب کا کوئی نشان تھا، نا خلیفہ کالے شاہ کا اور نا ان کے روپے پیسے کا۔ چھت کی کڑیاں بھی جل کر کالی پڑ چکی تھیں اور ادھر ایک بڑا سا سوراخ نظر آ رہا تھا۔

گامے کھوجی نے کوٹھڑی کا چکر لگا کر کہا کہ کل رات کمرے کے پیچھے چھت سے چھلانگ لگا کر باہر پکی سڑک کی طرف جانے کے نشانات ہیں۔ سب گاؤں والوں نے اس پر خوب لعن طعن کی اور کہا کہ پیر صاحب نے کوشش تو بہت کی مگر جنات کے آگے ان کی بس نہیں چلی، ناکام ہو گئے، ویسے وہ کرپٹ نہیں تھے، ان کے غلام جنات ہی ہمارا روپیہ پیسہ اور سونا چاندی لے اڑے ہوں گے اور ساتھ پیر صاحب کو بھی اڑا لے گئے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments