عدلیہ کے تحفظات اور تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی



انتہائی قابلِ احترام چیف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت ان کی طرزِ حکمرانی پہ شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال نشان کھڑے کردیئے، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی سرکار کی کارکردگی اور اہلیت پر سوال اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ معاونین اور مشیروں کی فوج کو وفاقی وزیروں کے درجات دے دیے گئے مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کی اکثریت مشیر بنی ہوئی ہے۔ اکثر لوگ منظر سے غائب ہیں جو موجود ہیں وہ اپنے اپنے معاملات میں لگے ہوئے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم حکومتی معاملات میں بے اختیار اور لاتعلق ہیں، اسی لئے شاید 49 رکنی کابینہ رکھی ہوئی ہے جبکہ دس افراد پہ مشتمل کابینہ سے بھی حکومت چلائی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے انتہائی سنگین نوعیت کے ریمارکس دیتے ہوئے وفاقی کابینہ کی تعداد کو غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ اتنے وزیروں مشیروں کے ہوتے ہوئے بھی کورونا کے سدباب کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے، انہوں نے وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج پر اٹھنے والے اخراجات کی تفصیل بھی طلب کی جبکہ خان صاحب کی نیت پہ شک نہ کرتے ہوئے ان کے معاون خصوصی ظفر مرزا کی کارکردگی اور اہلیت پہ سوال کھڑے کر دیے اور ان کو ہٹانے کے بھی سخت ریمارکس دیے۔

عدالت میں سرکاری نمائندے اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کے ریمارکس کو حکومت کے لئے نقصان دہ قرار دیا جبکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کابینہ میں سارے لوگ برے نہیں ہیں اچھے لوگوں کے ساتھ کچھ گندے انڈے بھی موجود ہیں۔ یعنی انہوں بادی النظر میں یہ تسلیم کیا کہ خان صاحب کی کابینہ میں گندے جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں۔ یقیناً اس طرح کے نوٹسز حکومتوں کی انتظامی کارکردگی اور صلاحیت کو بہتر بنانے میں معاون بھی ثابت ہوتے ہیں مگر جس طرح چیف جسٹس نے عمران خان حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کے ساتھ پاکستان کی عدلیہ جیسا ادارہ بھی خان صاحب کی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور عوام کی زندگیوں اور صحت کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں اور انتہائی ناقص کارکردگی سے نہ ہی مطمئن ہیں بلکہ حکومتی غیر سنجیدگی پر سخت تشویش میں بھی مبتلا ہیں جس کا انہوں نے برملا اظہار کیا۔

چیف جسٹس کے جانب سے اس تشویش اور تحفظات کے اظہار کے بعد سرکاری موقف کے حامی میڈیا پرسنز جو اب بہت کم تعداد میں رہ گئے ہیں وہ چیف جسٹس کے حکومتی کارکردگی پر اٹھائے گئے سوالات کو جوڈیشل ایکٹو ازم سے جوڑنے لگے، وہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اسپین کی مثالیں دے کر یہ سمجھا نے لگے کہ ان ممالک سمیت کسی ملک کی عدلیہ نے حکومتی کارکردگی اور اقدامات پہ نہ تو کوئی سوالات اٹھائے نہ ہی کسی قسم کی مداخلت کی، لیکن وہ ہی اینکرز پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں جسٹس افتخار چودھری اور ثاقب نثار جیسے چیف جسٹسز کے سوموٹو ایکشنز پر نہ صرف بغلیں بجاتے تھے بلکہ ان کی آڑ میں دونوں حکومتوں اور ان کی قیادتوں کی بدترین کردار کشی بھی کرتے تھے۔

ایسے ہی اینکرز مغربی ممالک کی مثالیں دیتے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ سمیت اکثر ممالک میں مرکزی حکومتیں اپنی حزب اختلاف، معاشرے کے ہر طبقے، ہر مکاتب فکر کے افراد اداروں کو ساتھ لے کر اس قدرتی آفت کا یکسوئی، اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ خان صاحب کی حکومت اور ان کے وزراء اپنے مخالفین کو کچلنے انہیں تکلیف پہنچانے، آزاد اور حکومتی پالیسز سے اختلاف رکھنے اور تنقید کرنے والی میڈیا کو اس آفت کے موقع پر بھی اپنے کاسہ لیس ادارے نیب کے ذریعے طابع کرنے اور ان کی آواز دبانے کے لئے بدترین انتقامی احتساب جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہماری عدلیہ نے حکومتوں کی کارکردگی پہ جو سوالیہ نشان اٹھائے اور خان صاحب کو یاد دہانی کرائی کہ آپ 49 رکنی کابینہ رکھ کر بے اثر ہو گئے ہیں جبکہ خان صاحب نے تو خود فرمایا تھا کہ دس پندرہ باصلاحیت افراد پہ مشتمل کابینہ بناکر وہ ملک میں مثال قائم کریں گے، لیکن مثال تو انہوں واقعی قائم کی پہلے بھان متی کا کنبہ اپنے ساتھ ملا کر، پھر اس کنبے سے بھانت بھانت کے غیر منتخب لوگ معاونین خصوصی اور مشیر بناکر وفاقی وزارت پہ مسلط کرکے، پھر انہوں نے مثال قائم کی ملک میں سیاسی ہم آہنگی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے بجائے مہاذ آرائی اور احتسابی انتقام شروع کرکے، انہوں نے مثال قائم کی ملک کی جمہوری اخلاقی معاشرتی قدریں مضبوط کرنے کے بجائے انہیں شدید نقصان پہنچا کر پارہ پارہ کرنے کی۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کی حکومت نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے جس غیر سنجیدہ اور انتہائی لا ابالی طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے، وہ سارا دن اپنی ذاتی مدح سرائی کرتے پوری دنیا سے چندے مانگتے قرضے مانگتے نظر آتے ہیں، یا پھر ان کے وزراء جو کئی کئی مہینے غائب رہتے ہیں ایک دم سے منظر عام پہ آ کر اس صوبائی حکومت پہ ٹوٹ پڑتے ہیں جس کی کارکردگی کی تعریف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے ادارے کر چکے، جس کے اقدامات کی تقلید خود ان کی اپنی صوبائی حکومتیں کرتی آئی ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت کی اسی ناقص کارکردگی اور کورونا وائرس سے نمٹنے میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو بھی ان کی کارکردگی پہ تنقید کرنے اور سوالیہ نشان کھڑے کرنے پہ مجبور کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ چیف جسٹس جناب گلزار احمد اور پانچ رکنی بینچ کے سخت سوالات کے جوابات اپنی کارکردگی اور صلاحیت میں بہتری لاکر دیں۔ اپنی کابینہ کے مہم جو وزراء کو لگام دیں کیونکہ اس وقت پاکستان میں اپوزیشن اور حکومت پہ تنقید کرنے والوں کو جس طرح کی اخلاق سے گری ہوئی مہم کا سامنا ہے وہ سب ان کے ایما پر جاری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے یہ بے لگام گھوڑے عدلیہ پہ بھی نہ چڑھ دوڑیں جس سے کوئی سنگین قسم کا آئینی قانونی بحران نہ پیدا ہوجائے اور اس وقت پاکستان کسی بھی قسم کے مزید بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments