کوارنٹین اور ولیم بھاگو خاکروب


پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جمالیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔ پلیگ تو خوفناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں۔ حالانکہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبے کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایام میں بیمار لوگوں کو تندرست انسانوں سے ازروئے قانون علیحدہ کرکے ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔

خویش اقربا کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ بعض اوقات معمولی بیمار آدمی بھی وہاں کی وبائی فضا ہی کے جراثیم سے ہلاک ہوگیا۔ اور کثرت اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقے پر ادا ہوتی، یعنی سینکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی مذہبی رسوم کا احترام کیے پٹرول ڈال کر سب کو نذر آتش کردی جاتا۔

کوارنٹین اس لئے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اسے چھپانے لگتے تاکہ کہیں مریض کو جبرا کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چونکہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لئے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کرواتے اور گھر کے وبائی ہونے کا صرف اسی وقت پتہ چلتا جب کہ جگر دوز آہ و بکا کے درمیان ایک لاش اس گھر سے نکلتی۔

انہی دنوں میں نوعیسائی ولیم بھاگو خاکروب جو میری گلی میں صفائی کیا کرتا تھا، میرے پاس آیا اور بولا بابوجی غضب ہوگیا۔ آج ایمبولینس محلے کے قریب سے بیس اور ایک بیمار لے کے گئی ہے۔ اکیس؟ ایمبولینس میں؟ میں نے متعجب ہوتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔ جی ہاں۔ پورے بیس اور ایک۔ انہیں بھی کونٹن (کوارنٹین) لے جائیں گے۔ آہ بیچارے کبھی واپس نہ آئیں گے؟

بھاگو رات کے تین بجے اٹھتا ہے۔ گلیوں اور نالیوں میں چونا بکھیرناشروع کردیتا ہے تاکہ جراثیم پھیلنے نہ پائیں۔ وہ لاشوں کو اکٹھا کرتا تھا اور لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ جو لوگ بیماری کے خوف سے باہر نہیں نکلتے بھاگو تو بیماری سے ذرا بھی نہیں ڈرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر موت آئی تو خواہ مریض کہیں بھی چلا جائے، بچ نہیں سکتا۔

ایک دن جب بھاگو میرے پاس آیا تومیں نے پوچھا بھاگو تمھیں پلیگ سے ڈر بھی نہیں لگتا؟
اس نے کہا نہیں بابو جی۔ بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ آپ اتنے بڑے حکیم ٹھہرے ہزاروں نے آپ کے ہاتھ شفا پائی مگر جب میری آئی ہوگی تو آپ کا دارودرمن بھی کچھ ا ثر نہ کرے گا۔ ہاں بابوجی۔ آپ برا نہ مانیں، میں ٹھیک اور صاف صاف کہہ رہاہوں۔ میں کس لائق ہوں۔ مجھ سے کسی کا بھلا ہو جائے، میرا یہ نکما تن کسی کے کام آجائے، اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔

میں نے بھاگو کی ہمت کو سراہنا چاہا مگر کثرت جذبات سے میں رک گیا۔ اس کی خوش اعتقادی اور عملی زندگی کو دیکھ کر میرے دل میں ایک جذبہ رشک پیدا ہوا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج کوارنٹین میں پوری تن دہی سے کام کرکے بہت سے مریضوں کو بقید حیات رکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان کو آرام پہنچانے میں اپنی جان تک لڑادوں گا۔

یہ بھاگو کی جانبازی کا صدقہ ہی تھا کہ میں نے بہت سے مریضوں کو شفایاب کیا۔ وہ نقشہ جو مریضوں کی رفتار صحت کے متعلق چیف میڈیکل افسر کے کمرے میں آویزاں تھا اس میں میرے تحت رکھے ہوئے مریضوں کی اوسط صحت کی لکیر سب سے اونچی چڑھی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ میں ہر روز کسی نہ کسی بہانے سے اس کمرے میں چلا جاتا اور اس لکیر کو سو فیصد کی طرف اوپر ہی اوپر دیکھ کر دل میں بہت خوش ہوتا۔

شام کو سوتے وقت مجھے اطلاع ملی کہ آج شام کوارنٹین میں پانچ سو کے قریب پہنچ گئے۔ میں ابھی ابھی معدے کو جلا دینے والی گرم کافی پی کر سونے ولا ہی تھا کہ دروازے پہ بھاگو کی آواز آئی۔ نوکر نے دروازہ کھولا تو بھاگو ہانپتا ہوا اندر آیا۔ بولا بابوجی میری بیوی بیمار ہوگئی۔ اس کے گلے میں گلٹیاں نکل آئی ہیں۔ خدا کے واسطے اسے بچاؤ۔ اس کی چھاتی پر ڈیڑھ سالہ بچہ دودھ پیتا ہے، وہ بھی ہلاک ہو جائے گا۔

بھاگو نے کانپتے ہوئے کہا وہ بالکل معمولی طور پر بیمار تھی۔ میں نے سمجھا شاید دودھ چڑھ گیا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی تکلیف نہیں۔

تو تم اپنی حد سے زیادہ مہربانی اور قربانی سے جراثیم کو گھر لے ہی آئے نا۔ میں نہیں کہتا کہ مریضوں کے اتنا قریب مت رہا کرو۔ دیکھو میں آج اسی وجہ سے وہاں نہیں گیا۔ اس میں سب تمھارا قصور ہے۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں۔ تم جیسے جانباز کو جانبازی کا مزہ بھگتنا ہی چاہیے۔ جہاں شہر میں سینکڑوں مریض پڑے ہیں۔ ”

میں اپنی حرکت پر بعد میں نادم ہونے لگا۔ اس کی بیوی کا پوری جانفشانی سے علاج کرنے کے لئے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور دوڑا دوڑا بھاگو کے گھر پہنچا۔ مگر پھر بھی اس کی بیوی بچ نہ سکی۔ بھاگو پھوٹ پھوٹ کر ر ونے لگا۔ وہ نظارا کتنا دلدوز تھا، جب بھاگو نے اپنے بلبلاتے ہوئے بچے کو اس کی ماں سے ہمیشہ کے لئے علیحدہ کردیا اور مجھے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ لوٹا دیا۔

میری نگرانی میں رکھے گئے تمام مریض صحت یاب ہوگئے یعنی نتیجہ سو فیصد رہا اور سیاہ لکیر اپنی معراج کو پہنچ گئی۔ میرے لئے بعد میں پروگرام منعقد ہوا۔ ہال تحسین و آفرین کی آوازوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ پروگرام کے بعد بھاگو نے مبارک باد دیتے وقت وہی پرانا جھاڑو قریب ہی کے ڈھکنے پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے منڈاسا کھول دیا۔ میں بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔ اس وقت میرا گلا سوکھ گیا۔ بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی اور بچے کی تصویر میری آنکھوں میں کھنچ گئی۔ اتنے اعزاز کے باوجود میں بے توقیر ہو کر اس قدر شناس دنیا کا ماتم کرنے لگا۔ (یہ افسانہ طویل ہے )

یہ کوارنٹین کے عنوان سے مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ہے۔ میں نے جب راجندر سنگھ بیدی کے بے مثال افسانوں کی کتاب کھولی تو ہکا بکا رہ گیا۔ صفحہ پلٹا تو کوارنٹین کے عنوان سے افسانہ تھا۔ جوں جوں پڑھتا رہا ذہن میں بلیک ڈیتھ اور سپینش فلو کی خبریں گردش کررہی تھیں۔ شاید اس نے یہ افسانہ اپنے دور کے طاعون سے پھیلتے ہوئے اموات اور لوگوں کی لاپرواہی کو مد نظر رکھ کر لکھا تھا۔ اور اس بات کو بھی واضح کرنے کوشش کی تھی کہ ہم طاعون کے وقت ڈاکٹروں اور نرسوں کی خدمات کو تو سراہتے ہیں۔ مگر جو کمزور طبقہ یعنی خاکروب، اردلی، چوکیدار وغیرہ ہیں ان کی خدمات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ مگر یہ لوگ بھی وبا کے دنوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اور اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں ان لوگوں کی بھی پذیرائی کرنی چاہیے۔

بدقسمتی سے یہ ہمارا پہلا تجربہ ہے کہ ہم کرونا وائرس سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور یہ جنگ تب ہی جیتی جاسکتی ہے جب ہم لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور اپنے آپ کو سیلف آئسولیٹ کریں۔ جھوٹے پروپیگنڈا سے اپنے آپ کو بچائیں اور مستند خبروں پر عمل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments