اجنبی قصبہ، بوگن ویلیا کی بیلیں اور عطااللہ کی کالی قمیص


یورپ کا ایک سرد دن، نہروں, پلوں پھولوں اور ہریالی سے سجا قصبہ، قدامت کی جھلک لئے، بنچوں پہ بیٹھے اخبار پڑھتے عمر رسیدہ لوگ، سیاحوں کی ٹولیاں!

جہاں دور دور تک کوئی ایشیائی نظر نہ آتا ہو، ایسے میں کانوں سے ایک بھولے بسرے گیت کے بول ٹکرائیں، ” قمیض تیری کالی، سوہنڑے پھلاں والی” تو یقیناً آپ کا بھی وہی حال ہو گا جو ہمارا ہوا۔

پاؤں شل ہو چکے تھے لیکن منزل آ کے ہی نہیں دے رہی تھی۔ ایرک ہر تھوڑی دیر بعد رکتا، فون پہ سمت درست کرتا اور لمبے لمبے ڈگ بھرنا شروع کر دیتا۔ ہم اس کا ساتھ دینے میں ہانپ ہانپ جاتے، پھر سست رفتار ہو جاتے اور پھر پورے گروپ کو اپنی رفتار آہستہ کرنا پڑتی۔ پتھریلی پرپیچ گلیاں ہمیں تھکائے دیتی تھیں۔

قصہ کچھ یوں تھا کہ ہم ماسٹرخت یونیورسٹی ہالینڈ میں زیر تعلیم تھے۔ ہم جماعتوں میں سولہ ملکوں کے لوگ شامل تھے، پرجوش، مہم جو، ایک سے بڑھ کے ایک۔ پورے ہفتے کی تھکا دینے والی پڑھائی کے بعد ویک اینڈ سب کے لئے مسرت بھرا احساس لاتا۔ چونکہ سب ہی دور دراز کے ملکوں سے آئے تھے سو ہر ویک اینڈ پہ یورپ کی کسی جگہ جانے کا پروگرام بن جاتا۔ چھوٹے چھوٹے گروپس بنتے، کوئی پیرس کا رخ کرتا، کوئی بون، کوئی ایمسٹرڈیم تو کوئی برسلز۔ جو جہاں جانا چاہتا، اس گروپ میں شامل ہو جاتا۔

ہمیں شروع سے بڑے شہروں کا مشینی حال دیکھنے کی بجائے قصباتی زندگی اپنی طرف کھینچتی ہے جہاں مقامی معاشرت کے رنگ، بنت اور مقامی لوگوں سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے۔ ہمیں خبر ہوئی کہ ایک گروپ بیلجئم کے ایک دور دراز قصبے کا رخت سفر باندھ رہا ہے جو اپنی خوبصورتی اور قدامت کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس میں کینیڈا کا ایرک، پیرو کا ہیلی، جاپان کا یاسوشی، کینیا کی رزان اور اومان کی اسما شامل تھے۔ ان لوگوں سے ذہنی مطابقت بھی تھی اور جگہ بھی من پسند سو فوراً ایرک، جو کہ گروپ لیڈر تھا، کو بتایا کہ ہم بھی ہمراہی کے متمنی ہیں۔

 

بروج نامی یہ قصبہ ان مقامات میں شامل ہے جہاں ابھی تک قرون وسطیٰ کی جھلک پائی جاتی ہے۔ دار الحکومت برسلز سے ایک سو تیس کلومیٹر کے فاصلے پہ یہ قصبہ بیلجیئم کا وینس بھی کہلاتا ہے۔ اسی نہروں کا جال قصبے کے مختلف علاقوں کو ملاتا ہے۔ نہروں کے اوپر بنے پل پیدل چلنے والوں کو بھی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ بہت بعد میں اس قصبے میں عامر خان نے اپنی مشہورِ عالم فلم  “پی کے” کی عکس بندی کی۔

ہمیں ماسٹرخت سے ٹرین لے کے پہلے برسلز پہنچنا تھا اور برسلز سے دوسری ٹرین کے ذریعے بروج۔ کل تین گھنٹے کی مسافت تھی اور طے یہ پایا تھا کہ سب صبح ساڑھے سات بجے سٹیشن پہ اکھٹے ہوں گے اور آٹھ بجے والی ٹرین پکڑ لی جائے گی۔

ہیلی، ایرک، یاسوشی، رزان ، اسما اور ہم چھ لوگ نہیں تھے، چھ تہذیبیں تھیں۔ جو ٹرین میں اپنی اپنی بولی میں کینیڈا، پیرو، جاپان، کینیا، اومان اور پاکستان کی کہانیاں کہتی تھیں، ہنس ہنس کے بے حال ہوتی تھیں اور اجنبی منزلوں کو دیکھنے کی چاہ میں ایک دوسرے کے ہمراہ سفر کرتی تھیں۔

مونگ پھلیاں اور چپس کھاتے، کافی پیتے، کھڑکی سے جھانکتے اور مستقبل کے منصوبے بناتے تین گھنٹے پلک جھپکتے میں گزر گئے اور ہم بروج آ پہنچے۔ پہلے سے طے تھا کہ پہلے بوٹ پہ بیٹھ کے قصبے کے بیچوں بیچ گھومیں گے بعد میں یہ بنجارے گلی گلی پھریں گے۔

سیاحوں کی لمبی قطاریں بوٹ سٹاپ پہ تھیں۔ ایرک نے سب کے ٹکٹ لئے اور ہم سب نے فوراً حساب کتاب کر کے اپنا اپنا حصہ اس کے ہاتھ میں تھمایا۔ مغرب کے باسیوں کی لین دین کی عادت میں کوئی جھوٹ موٹ کی مروت یا سادگی کے پردے میں عیاری نہیں پائی جاتی۔

چھپا چھپ بوٹ چلے جا رہی تھی۔ رنگ برنگے مکان، پھولوں کی بیلوں سے ڈھکے، قدیم طرز تعمیر، پرانے انداز کی کھڑکیاں، جھروکے، بالکونیاں ، یوں جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو۔ بروج واقعی اٹلی کے شہر ‘وینس’ کا برادر خورد دکھتا تھا۔

کسی گھر کے درخت کی شاخیں پانی کے اوپر جھک کے گلے ملتی تھیں۔ کسی گھر کی کھلی کھڑکی سے لمحے بھر کو گھر کے مکینوں کی ادھوری سی جھلک نظر آتی۔ جھولے میں سوتا بچہ، کروشیا بنتی نانی، اخبارپڑھتا دادا، کافی بناتی ماں، ریڈیو پہ بجتا پرانا گیت، ایک لمحے میں تصویر بنتی اور مٹ جاتی۔ کبھی کوئی مکین سر اٹھا کے پاس سے گزرنے والی بوٹس کو دیکھتا اور پھر سے اپنے دھیان میں گم ہو جاتا۔ ہم ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے سیاح ان کی زندگی کا حصہ تھے، جیسے کسی پینٹنگ کا پس منظر وہی رہے اور پہلی نظر میں دکھنے والے رنگ ہر دن بدل جائیں۔

نہروں میں کشتیوں کی آمدورفت ایسے ہی تھی جیسے کسی مصروف شاہراہ پہ مسافروں سے بھری ٹیکسیاں۔ اجنبی سیاح، کچھ لمحوں کے ہم سفر ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پھر کبھی نہیں ملیں گے، ایک دوسرے سے اونچی آواز میں باتیں کرتے تھے، ہنستے تھے اور بوٹ تیرتی چلی جاتی تھی۔

پلوں کے نیچے سے گزرتے ہوئے، نہری گلیوں میں گزرے زمانوں کو یاد کرتے جونہی بوٹ سے اترے، رزان کی آواز آئی،

” پہلے کھانا پھر کچھ اور “

“بالکل ٹھیک” ہیلی اور یاسوشی نے کہا

کمانڈر ایرک مسکراتے ہوئے بولا

” کیا کھایا جائے؟ “

” کچھ بھی، لیکن حلال ہونا چاہئے ” اسما بولی

“ٹھیک ہے، ڈھونڈو پلیز “

اور کچھ ہی دیر میں انٹر نیٹ کی مدد سے سراغ لگا لیا گیا کہ کچھ فاصلے پہ ایک حلال کھانے کا ریسٹورنٹ موجود ہے۔ ہمارے کسی بھی دوست کو حلال کھانے میں ہمارا ساتھ دینے میں کوئی تامل نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم سب سنگلاخ پتھریلی پرپیچ گلیوں میں ایرک کے پیچھے چلے جا رہے تھے۔ بھوک عروج پہ تھی اور تھکاوٹ نڈھال کرتی تھی۔

چھوٹا سا ایشائی ریسٹورنٹ، کاؤنٹر کے پیچھے ایک پچیس چھبیس سالہ گورا چٹا نوجوان کھڑا تھا جس کی آنکھیں چھ سیاحوں کی ٹولی دیکھ کے چمک اٹھی تھیں۔ وہ تیزی سے کاوئنٹر سے باہر آیا اور رسمی جملوں کے بعد سب کو مینیو کارڈ تھما دیا۔ سب اپنی اپنی پسند کا اظہار کر رہے تھے لیکن ہم حیرت سے گنگ تھے۔ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہی جو آواز کان سے ٹکرائی تھی وہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے مشہور گیت” قمیض تیری کالی ” کی تھی۔

سب نے اپنا آرڈر دیا تھا۔ ہم سکون سے انتظار کر رہے تھے جب وہ ہماری طرف متوجہ ہوا تو ہم نے اسے اردو میں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا

” پاکستان میں کہاں سے ہو؟”

اب حیرت سے ٹھٹکنے کی اس کی باری تھی، ” آپ، آپ پاکستانی ہیں “

” اسی لئے تو پوچھ رہی ہوں ” ہم مسکرائے،

“اوہ، میم، مجھے بالکل اندازہ نہیں ہوا، وہ اصل میں آپ کے ساتھ گورے ہیں نا۔ جی، میں سیالکوٹ سے ہوں”

اس نے تھوڑی ہی دیر میں سب کا کھانا سرو کیا تھا جو بہت لذیذ تھا۔ اس کہانی کا اختتام ہمارے ساتھیوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر گیا جب اس نے ہمارے سب ساتھیوں کی چائے اور ہماری ڈش کے پیسے نہ لینے کا اعلان کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یورپ کے اس دور افتادہ علاقے ميں واقع اس کے ریسٹورنٹ میں بہت برسوں میں پہلی دفعہ کوئی پاکستانی آیا ہے اور اب اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستانی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرے۔ ہمارے بے پناہ اصرار کے باوجود وہ نہ مانا۔

ہمارے ساتھی حیران وپریشان ہوتے تھے اور ہماری گردن نامحسوس طور پہ پاکستانی اپنائیت کے اس جذبے سے کلف زدہ ہوئی جاتی تھی۔ بروج کے ریسٹورنٹ نے دیار غیر میں دیس کی یاد دلا دی تھی۔

من کی دنیا آباد ہو چکی تھی اور دریچہ دل سے بہت سے چہرے جھانکتے تھے۔ ہم بے طرح اداس ہوئے جاتے تھے۔ بروج کی ٹیڑھی میٹھی گلیوں میں گھومتے گھروں کے بوگن ویلیا سے ڈھکے ادھ کھلے دروازوں سے اندر جھانکنے کی خواہش کو جھٹکنا دشوار ہوا جاتا تھا۔ کیا دیس میں بھی ہمارے گھر کے سامنے سے گزرنے والے اجنبی کسی اور مقام کی یاد میں گم ہوتے ہوں گے؟

ہم بروج گھوم چکے تھے، دن ڈھل رہا تھا۔ مسافر واپس لوٹنا چاہتے تھے لیکن گھر تو ابھی بھی بہت دور تھا۔ شام کے دھندلکے میں مختلف دنیاؤں کے لوگ خاموشی سے اپنی اپنی یادوں میں گم، ایک خوبصورت دن کے اختتام پہ ٹرین میں بیٹھے اپنے عارضی مستقر کی طرف رواں دواں تھے۔

سورج ڈوب رہا تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments