’ہم سب‘ کے لیے تین سو محبت نامے



جب کوئی دوست مجھ سے پوچھتا ہے:
’ڈاکٹر سہیل! آپ کی اپنی تخلیقات کے بارے میں کیا رائے ہے’؟
تو میں کہتا ہوں، ’میری تخلیقات انسانیت کے نام میرے محبت نامے ہیں‘۔

ایک وہ زمانہ تھا جب میں اردو میں غزلیں، نظمیں اور افسانے لکھتا تھا۔ پھر وہ دور آیا، جب میں نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا اور اردو میں لکھنا چھوڑ دیا۔ اس سے میری پہلی محبوبہ اردو بہت ناراض ہوئی اور اپنی سوکن انگریزی سے حسد کی آگ میں جلنے لگی۔ مجھے خدشہ تھا کہیں وہ آپے سے باہر ہو کر انگریزی کے بال ہی نہ نوچ لے۔ چناں چہ اپنی پہلی محبوبہ کو خوش کرنے لیے میں نے‘ ہم سب ’پر کالم لکھنا شروع کیے۔

جب میں نے اردو کے عشوہ و غمزہ و انداز و ادا کا خیال رکھنا شروع کیا اور اس سے دوبارہ راہ و رسم بڑھائے تو اس نے بھی پرانی محبوبہ کی وارفتگی اور خود سپردگی کے جذبات سے مغلوب ہر کر مجھے گلے لگا لیا۔

’ہم سب‘ پر کالموں کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ میں تین سالوں میں تین سو محبت نامے لکھ لوں گا۔ میں آج ’ہم سب‘ کے مدیران اور قارئین کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے مجھے حد سے زیادہ پیار محبت، اپنائیت اور خلوص دیا۔ اب مجھے ہر ہفتے محبت نامے موصول ہوتے ہیں، جن میں کبھی قارئین مجھ سے اپنے نفسیاتی مسائل کے بارے میں مشورے مانگتے ہیں اور کبھی مجھ سے فلسفیانہ ’ادبی اور روحانی سوال پوچھتے ہیں اور میں اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

پرسوں ایک مذہبی درویشنی کا درویش نامہ آیا، جس میں انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ دہریہ درویش کون ہوتا ہے؟ چوں کہ یہ سوال مجھ سے پہلے بھی بہت سے قارئین پوچھ چکے ہیں تو آئیں آج آپ بھی ایک مذہبی درویشنی اور ایک دہریہ درویش کے مکالمے سے محظوظ و مسحور ہوں۔

درویش نامے
ڈاکٹر خالد سہیل۔ لالہ رخ ملک

درویش نامہ 1

اے اچھے درویش!

پورا ایک ماہ میں آپ کے مہمان خانے میں رہی، جہاں میں نے آپ کے ہم راہ اپنی ذات کی غلام گردشوں کی سیر کی۔ روحانی سیر کا موقع ملا، دوران سیر بہت سے حسین واقعات رُو نما ہوئے۔ مفہوم کے نئے ذائقے چکھے۔ معانی کے نئے باب کھلے۔ سچ کی تلاش میں آپ کے ساتھ یہ سفر حیرت انگیز طور پہ خوش گوار رہا۔ بہت کچھ نیا جانا، نیا سیکھا۔ آپ نے مجھے اپنی سنگت عطا کی اس کے لیے ممنون ہوں۔

اب میری دلی خواہش ہے کہ آپ میرے غریب خانے کے مہمان ہوں۔ میری کٹیا میں چند دن گزاریں تا کہ زندگی کے کچھ گوشے مجھ پہ بے نقاب ہوں۔

آپ کو روحانی نگاہ سے جانا تو محسوس ہوا کہ آپ کے ایک ہاتھ میں قلم ہے تو دوسرے میں امید کا دیا۔ آپ کے پاؤں حرکت میں ہیں۔ حرکت جو زندگی کا استعارہ ہے۔ آپ کے گرد روشنیوں کا سمندر ہے جو شفائی لہروں سے رواں ہے۔ گو میں دیکھ سکتی ہوں کہ آپ عاجزی کی چال چلنے والے خدا کے وہ صالح بندے ہیں، جن کا ذکر وہ الہامی کتب میں کرتا ہے۔ وہ اپنے مخلص بندوں کی ہر ادا سے محبت کرتا ہے۔ اور مخلوق خدا کو اپنا کنبہ ماننے والوں کو ہر دل عزیز بنا دیتا ہے۔

؎ یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدی ’کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالق دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

وہ زمین پر نرمی سے چلنے والے اچھا اور میٹھا بول بولنے والے اور سچ بولنے والے کو جنتوں کی بشارت دیتا ہے۔ وہ ہر آن مصروف عمل ہے اور ہر آن اک نئی شان اس کے ظہور پر گواہ ہے۔ یہ میرا سچ ہے۔

آپ ایک متواضع عاجز اور مہربان درویش ہیں۔ جن کے دل اور گھر کے در ہر اس شخص کے لیے وا ہیں جو آپ کو مدد کے لیے شفا کے لیے پکارتا ہے۔ آپ پر رحمتوں کا نزول ہے۔

میں اپنی محدود نظرسے ہر شے کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میری نظر میں درویش وہ شخص ہوتا ہے جو خدا کا مہمان ہو۔ پتا نہیں یہ تعریف درست ہے یا نہیں مگر قلندر بابا اور اولیا کے مطابق درویش میں استغنا ہوتا ہے۔ رب تعالی اسے چٹنی کے ساتھ روٹی کھلائے تو وہ راضی ہو جاتا ہے اور مرغ مسلم سے نوازے تو وہ مزے سے کھاتا ہے۔ وہ دنیاوی حرص سے بے نیاز ہوتا ہے۔ مگر یہاں آپ سے جاننا چاہوں گی کہ ایک دہریے درویش اور عام درویش میں کیا فرق ہے؟

ایک پروگرام کے دوران میں جب درویش کے بارے میں آپ کی گفتگو سنی تو جانا۔ ایک دہریہ درویش بھی عام درویش کی طرح جو مل جائے اس پہ شکر اور جو نہ ملے اس پہ صبر کی روش اختیار کرتا ہے۔ وہ اعلی و ارفع مقصد حیات سے بندھا ہوتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کی مہار اپنے ہاتھ میں تھام رکھی ہوتی ہے۔ وہ نہ عالم کی طرح شاہی سوار ہوتا ہے۔ نہ اس کے سر پہ تکبر کا عمامہ باندھا ہوتا ہے نہ فن کار کی طرح نرگسیت کا شکار ہوتا ہے۔ مجھے آپ کے روز و شب کے مطالعے کے دوران میں خیال آیا، کہ دہریہ درویش بھی کیا انعام یافتہ بندہ ہوتا ہے؟

یہ خود نمائی سے کوسوں دور خدمت خلق کی شاہ راہ کا پا پیادہ سپاہی جو مڑ مڑ کے دیکھتا ہے کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا۔ کہیں کوئی سواری سے گر تو نہیں گیا، کہیں کوئی قافلے میں شریک ہونے سے چوک تو نہیں گیا۔ وہ ہر وقت چوکنا اور بیدار ہوتا ہے۔ وہ اپنی متاع حیات انسانیت کے نام کر دیتا ہے اور اپنے لیے بس اتنا ہی وقت نکال لیتا ہے، جو اس کے رشتہ حیات کو چلانے کے لیے کافی ہو۔ اس کی چھاگل محبت کے پانی سے بھری رہتی ہے۔ وہ جتنی پیاس بجھاتا ہے اس کی چھاگل اسی تیزی سے بھر جاتی ہے اور وہ مسرور، اس راستے پر قدم بڑھائے جاتا ہے۔ جنت اس کی منتظر ہوتی ہے۔ حوریں اس کے لیے گیت گاتی ہیں مگر وہ ان جھگڑوں سے پاک عمل کی زندگی سے جنت کو تعمیر کرتا ہے۔ ایک ایسی جنت جہاں اس نے اپنی محنت اور خلوص سے اتنے پودے لگائے ہوتے ہیں کہ گھنے سائے اور آب خورے اٹھائے چاہنے والے بے تاب رہتے ہیں۔

آج حضرت نظام الدین اولیا کرام کی خدمت میں سلام پیش کرتی ہوں، جن کی علالت کے دوران میں ان کے شاگرد حضرت امیر خسرو نے قصہ چہار درویش فارسی زبان میں بنایا کہ ان کے استاد کی طبیعت بہل جائے جو بعد ازاں فورٹ ولیم کالج کے دوران میر امن دہلوی کی باغ و بہار کا حصہ بنا۔ قصہ چہار درویش اپنے اعلی اسلوب اور شان دار قادر الکلامی کے باعث اردو ادب کا جھومر ہے۔

جب میں نے لفظ درویش کے متعلق سوچا تو ماہ رو، بصرہ کی شاہ زادی اور فارس کے شاہ زادے کے کردار میرے ذہن کے افق پر روشنی کے چھماکے بن کے اترے۔ کیا ہی فصیح قلم ہے جس میں معنی آفرینی کا اک جہاں روشن ہے۔ ”تنہائی، دانائی اور خاموشی پرانی سہیلیاں ہیں“۔ کیا ہی فصیح جملہ ہے، جو وقت کے اس دہریہ درویش کی تخلیق ہے۔ اس موضوع پر سیر حاصل بات اگلے نامے میں کروں گی۔ درویش کو سلام۔

طالبہ
لالہ رخ ملک
10 اپریل
2020
وقت: 10 بجے، بروز جمعہ المبارک
موضوع درویش
نیت۔ تلاوت ذات
۔ ۔ ۔

درویش نامہ 2

اے سچ کی تلاش میں نکلی ہوئی طالبہ! اے لالہ رخ!
تم اپنے خیالوں کی دنیاؤں اور تصورات کے جہانوں میں مجھ سے کئی بار ہم کلام ہوئیں، لیکن حقیقی دنیا میں ہماری ایک دفعہ بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ تم میرے لیے اجنبی بھی ہو، آشنا بھی۔ اجنبی اس لیے کہ میں نہیں جانتا کہ تم کہاں رہتی ہو۔ کیا کرتی ہو۔ رات دن کیسے گزارتی ہو۔ لیکن آشنا اس لیے کہ جب بات کرتی ہو اور سوال پوچھتی ہو تو یوں لگتا ہے جیسے میں تمہیں صدیوں سے جانتا ہوں۔

یہ وہی سوال ہیں جو نسلوں سے سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر اپنے آپ سے اور ایک دوسرے سے پوچھتے آئے ہیں۔

تم نے دہریہ درویش کے بارے میں پوچھا ہے تو عرض ہے کہ روایتی درویش مذہب کے راستے سے سچ تک پہچتا ہے لیکن ہر مذہب، ہر روایت اور ہر مسلک کا اپنا جداگانہ راستہ ہے اسی لیے کوئی سنت کہلاتا ہے، کوئی سادھو اور کوئی صوفی۔ کوئی خدا کا پرستار بن جاتا ہے۔ کوئی اللہ کا ولی اور کوئی بھگوان کی تلاش میں نروان حاصل کرتا ہے لیکن دہریہ درویش اپنے سچ کی تلاش میں خدا اور مذہب سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اس کے دو راستے اور دو منزلیں ہوتی ہیں۔
پہلی منزل سچ کی تلاش اور دوسری منزل انسانیت کی خدمت۔

روایتی مذہبی درویش خدا سے محبت کرتا ہے۔ جب کہ دہریہ درویش انسان دوست ہوتا ہے۔ وہ تمام عمر انسانیت کی خدمت کرتا رہتا ہے۔ وہ نماز، روزے، حج، قربانی سے آگے نکل جاتا ہے۔ اس کے لیے انسانیت کی خدمت ہی اس کی سب سے بڑی سیکولر عبادت بن جاتی ہے۔

ایسا درویش اپنی ذات کے نہاں خانوں میں سکون پا لیتا ہے اور کہتا ہے:
؎ عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں
میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں

وہ درویش ساری انسانیت کے لیے امن چاہتا ہے اور رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالا تر ہو کر انسانوں کو گلے لگاتا ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ مذہب بھی انسانوں کو خدا، اللہ، بھگوان کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں بانٹتا ہے۔

روایتی درویش آسمانی باپ سے دل لگاتا ہے اور ولی اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب کہ دہریہ درویش دھرتی ماں سے پیار کرتا ہے اور انسان دوست کہلاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سب انسان دھرتی ماں کے بچے ہیں، اسی لیے اس کے دشمن بھی اس کے دور کے رشتہ دار ہیں۔ وہ سب انسانوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سب انسان، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، کالے ہوں یا گورے، عورتیں ہوں یا مرد، بچے ہوں یا بوڑھے سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ وہ ایسے معاشرے کے بارے میں سوچتا ہے جہاں سب انسانوں کے برابر کے حقوق و مراعات حاصل ہوں گے۔ یہ اس کا آدرش ہے اور یہی اس کا خواب اور وہ ان سب مذہبی ’روحانی اور سیکولر دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے، جو کرہء ارض پر امن کے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کو شرمندہء تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔

اے سچ کے سفر کی طالبہ!

میں حقیقی دنیا میں تم سے کبھی نہیں ملا لیکن خیالی اور تصوراتی دنیا میں نجانے کتنے سالوں دہائیوں اور صدیوں سے تمہارا ہم سفر ہوں اور رہوں گا۔ اس سفر میں نجانے کتنے اور سچ کو تلاش کرنے والے ہمارے ہم سفر بنیں گے اور ہم سب قافلہ بنا کر داخلی امن، خارجی آشتی کی منزلوں تک پہنچیں گے اور اسی دنیا میں ایک جنت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔

اے سچ کی طالبہ! تم اسی ارضی جنت کی شہزادی ہو۔ لالہ رخ ہو اور خوش قسمت ہو کیوں کہ تمہارے جسم میں پاکیزگی تمہارے دل میں ہم دردی اور تمہارے ذہن میں دانائی کے دیے روشن ہو چکے ہیں۔ ان سے تم ایک امن کی پیغام بر بن گئی ہو۔ اب بہت سے لوگ تمہارے دانائی کے چراغ سے اپنی ذات کے چراغ روشن کریں گے اور چاروں طرف امن سکون، شانتی، آشتی کی روشنی پھیلائیں گے۔

تمہارا ہم سفر
ایک انسان دوست درویش
11اپریل 2020ء

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments