کیا یہ عالمی وبا سنیما گھروں کو ختم کر دے گی؟


ہم سب نئے زمانے کی ایک اجتماعی علت کا سامنا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اس دور میں برپا ہونے والے سماجی تغیرات کی ابتدائی صورت کا مشاہدہ کرتے ہوئے قیاس آرائیوں، اندیشوں، مزاحمتوں اور حکائتوں کے مراحل سے بھی گزر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں آج کا مقالہ عالمی سنیما کی صنعت سے جڑے کچھ حقائق اور خدشات کا احاطہ کرتے ہوئے اس صنعت سے وابستہ ماہرین کی آرا اور تجزیات پر مبنی ہے۔ کینیڈا کے میڈیا ماہر پال گین کے مطابق دنیا بھر میں تفریحی نمائش کے کاروبار سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اسی لئے ہمیں آج کے حالات کو سامنے رکھنا ہو گا اور کسی بھی قسم کی غیر حقیقی پیشن گوئیوں سے اجتناب کرتے ہوئے مستقبل کے لئے ایک سنجیدہ اور قابل عمل منصوبہ ترتیب دینا ہوگا۔

اس وقت دنیا کے زیادہ تر ممالک میں سنیما گھر مکمل بند ہیں اور ایسا نئے دور میں پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل جنگ و دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر فلم گھروں کو عارضی طور پر کام کرنے سے روک دیا جاتا رہا ہے لیکن اب کی بار حالات قدرے مختلف ہیں۔ سنیما اجتماعی تفریح کا سستا ذریعہ ہے جہاں افراد گروہ کی شکل میں اکٹھے ہو کر فلم بینی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جدید فلم گھر بصری، صوتی اور تکنیکی فراز کے ساتھ ساتھ اپنی گنجائش میں بھی اضافہ کر رہے ہیں تاکہ ایک ہی وقت میں فلم بینوں کی ایک بڑی تعداد کو اس شغل سے بہراور ہونے کا موقع فراہم کرسکیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ متعدی مرض کے اس دور میں تفریح کا یہ رجحان ماند پڑ سکتا ہے۔

حال ہی میں امریکہ میں ہونے والی ایک برقی رائے شماری کے مطابق لوگوں کی ترجیحات میں اولین صحت، خوراک، ادویات، مسکن اور بنیادی انسانی ضروریات ہی سر فہرست رہیں۔ سنیما کے بارے میں کثرتی رائے معذرت خواہانہ رہی جس میں اس کاروبار سے وابستہ افراد سے ہمدردی کی گئی اور فردی صحت کے تناظر میں گروہی تفریحات کی واپسی میں مکمل اعتماد بحال ہونے کا عنصر بنیادی ٹھرایا گیا۔ اس سلسلہ میں کوئی حتمی مناسبت تو طے نہیں ہوئی لیکن واشنگٹن پوسٹ کی ایلیسا روزن برگ کا کہنا ہے کہ فلم بینوں کا یہ رجحان بظاہر آج کے سنیما کے تصور کو دنیا سے ختم کر سکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ ڈاٹ کام پرشائع شدہ مقالہ میں ایلیسا کہتی ہیں ”اس وبا سے پہلے ہی نفیس ٹی وی ڈراموں اور سٹریمنگ کی سہولت نے پرستاروں کو تقسیم کردیا تھا جس سے سنیما جیسی ثقافتی ہم آہنگی میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ اگر پہلے عوامی تفریح کا کاروبار گدلے پانیوں میں غوطے کھا رہا تھا تو اب اس وبا نے اسے لق و دق صحرا میں لا پٹخا ہے۔ “ ایلیسا مزید لکھتی ہیں ”سونی انٹرٹینمنٹ اور یونیورسل ناظرین کے ساتھ جڑنے کے لئے نئے طور طریقے اپنا رہے ہیں۔

حال ہی میں ان دونوں اداروں کی آنے والی کچھ نئی فلموں کو سنیما سے پہلے ہی آن ڈیمانڈ ریلیز کیا گیا۔ سماجی دوری کے ان حالات میں جب لوگوں کے پاس گھروں میں چپٹی سکرین والے بہترین ٹی وی اور سنیما جیسے صوتی آلات موجود ہیں وہیں سونی اور یونیورسل کے ان اقدامات کو فلمی صنعت نے کچھ زیادہ نہیں سراہا۔ اگر سونی اور یونیورسل کا یہ تجربہ کامیاب رہا تو شاید یہ دنیا سے فلم گھروں کے متروک ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ “

رچرڈ گرین فیلڈ فلمی کاروبار کے ماہر و مشیر ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے نیو یارک ٹائمز سے گفتگو کی جس کا حوالہ بی بی سی اردو نے اپنے ایک مضمون میں بھی دیا۔ بی بی سی کے مطابق رچرڈ کی رائے میں موجودہ حالات کے باعث انٹرٹینمنٹ کی نمائش کا کاروبار اس برس کے آخر تک دیوالیہ ہو جائے گا۔

اس کے علاوہ ورائٹی ڈاٹ کام پرشائع ہونے والے ایک مقالے میں لاس اینجلس کے فلمی ماہر مائیکل پیچر بھی رچرڈ سے متفق نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق سنیما گھروں کی صنعت تباہی کے دہانے پر آن کھڑی ہے۔

بین الاقوامی ماہرین کے ان خدشات کے حوالے سے اگر ہم پاکستان میں فلمی اور نمائشی صنعت کی بات کریں تو فلمی کاروبار سے جڑے افراد کی طرف سے ابھی تک کوئی جامع منصوبہ یا لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ مانڈوی والا خاندان پاکستان میں فلمی نمائش کی صنعت کا ایک بڑا نام ہے۔ اس کے علاوہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بھی سنیما گھروں کے مالکان بظاہرا اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب اس معتدی وبا سے فراغت ہو اور تب فلم بین دوبارہ سنیما گھروں کا رخ کریں۔ یہ ایک مثبت سوچ ہے لیکن بدلتی دنیا کے ساتھ ساتھ اب پاکستان میں اس صنعت کو نئے رجحانات کی تقلید کی بجائے تخلیق کی طرف راغب ہونا چاہیے اور انھیں سمجھنے، ڈھالنے اور اپنانے میں جمود کی بجائے رفتارپر انحصار کرنا چاہیے۔

کہا جاتا ہے فن اور فنکاروں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ لیکن اب دنیا میں کم از کم دو ملک ایسے ہیں جن کی جنیونیت نے اس نفیس شعبے کو اپنی جکڑ میں لے کر اس کی شائستگی و شگفتگی کو پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ یہ عالمی بھی وبا پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات پر چھائے گہرے، اندھے اور گھٹن زدہ دھوئیں میں کسی بھی خوشگوار، ہوا دار و روشن مینارے کی جستجو میں ناکام رہی ہے۔

اس کی تازہ مثال وائس آف امریکہ اردو کا وہ مضمون ہے جس میں بھارتی فلمی صنعت کی یونین نے دونوں ملکوں کے گلوکاروں اور موسیقاروں کو مل کر کام کرنے سے خبردار کیا ہے۔ وی او اے اردو ہی کی ایک دوسری خبر کے مطابق بھارت پاکستان سرحد پر فوج باری جاری ہے اور ماہرین وبا کے دنوں میں دونوں ملکوں کے اس رویے کو شام اور افغانستان کے حالات سے بھی بدتر مان رہے ہیں۔

ان حالات میں جہاں دونوں ملکوں میں فلم اور سنیما گھروں کے ساتھ ساتھ ان گنت کاروبار اور افراد تباہی و بھوک کے کنارے کھڑے ہیں وہاں باہمی مدد و مضبوطی کے سر سجانے کی بجائے گولیوں اور بم دھماکوں میں موت کے رقص کو ترجیح دینے کے محرکات بہت صاف اور واضح سمجھے جا سکتے ہیں۔ یہ جنونی پن اور نا امیدی کی ایک نئی جہت ہے جس کے بارے میں سیاسی و سماجی ماہرین کو اس معتدی وبا کی طرح شاید زیادہ علم نہیں ہے۔

مضمون کا رخ امید کی طرف کرتے ہیں جہاں امریکہ کے ایک سنیما گھر یونیورسل تھیٹر کے مالک مارک او میرا عالمی وبا سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہیں۔ مارک کے مطابق تمام سنیما مالکان کو تیار رہنا چاہیے کیونکہ حالات سدھرتے ہی فلم بین سنیما گھروں پر ہلہ بولنے والے ہیں۔ جب مارک سے پوچھا گیا کہ وہ اتنے پر امید کیوں ہیں تو ان کا جواب تھا ”لوگ آئیں گے، ضرور آئیں گے میں نے خود انھیں کہتے سنا ہے کہ وہ نیٹ فلیکس وغیرہ سے بور ہو چکے ہیں اور دوبارہ سے سنیما دیکھنا چاہتے ہیں۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments