18 برس پہلے کورونا وائرس نہیں تھا مگر۔۔۔


18 برس پہلے پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا موجود نہیں تھی بلکہ دنیا بھر میں کسی نے اس مرض کا نام تک نہیں سنا تھا۔ تاہم اس گئے گزرے دور میں بھی پاکستان اور یہاں کے لوگوں کی فی سبیل اللہ رہنمائی کرنے والی ہستیاں موجود تھیں۔ ذیل میں پاکستان کے معروف صحافی خالد احمد کے ایک مضمون کا ترجمہ دیا جا رہا ہے۔ یہ مضمون فروری 2002 میں تحریر کیا گیا۔

٭٭٭     ٭٭٭

ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہے کہ پاکستان میں نافذ کیا گیا اسلام اپنی روح کے عین مطابق نہیں اور اسلام کی ایک اصل صورت موجود ہے جسے بحال کرنا چاہئے۔ کم از کم ”ڈان“ کے مسعود مفتی (29 دسمبر 2001ئ) کی رائے تو یہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر کے تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق ہمارے اسلام کی تفسیر بالکل درست ہے۔ سرسید احمد خان کے ”منطقی“ اسلام کو ان کی زندگی میں ہی مختلف مسلم طبقات فکر نے مسترد کر دیا۔ دیوبندیوں کے ساتھ ساتھ بریلویوں نے بھی۔ مصر میں محمد عبدہ کے اصلاحی جذبے کو 21ویں صدی کے اسلام پسندوں (بشمول علمائے الازہر) نے چیلنج اور نظر انداز کیا۔ اجتہاد کے اصولوں کے تحت فقہ پر زور دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ اسلامی قانون کی بنیاد فقہ پر ہے اور صرف ایسی چیزوں میں اجتہاد کی اجازت ہے جو فقہ کے ذریعے طے نہ ہو سکیں۔ ایک بار علامہ اقبال نے اجتہاد کے بارے میں لکھنے کی کوشش کی اور مولانا سلمان ندوی کے نام ایک خط میں کچھ سخت سوالات کئے کہ فقہ کن جگہوں پر قرآن سے تجاوز کرتا ہے۔ مولانا نے کوئی جواب نہ دیا۔

1999ءمیں سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ کی جانب سے ربا کے متعلق فیصلے نے بہت سوں کو ہلا کررکھ دیا‘ لیکن یہ فیصلہ فقہ کے عین مطابق تھا۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے فقہ ہی کے تحت پرانا فیملی لاءآرڈیننس منسوخ کر کے مردوں کو پہلی بیویوں کی اجازت کے بغیر مزید شادی کرنے کی اجازت دی۔ عدالت نے فیصلے کو منطقی رنگ دینے کی خاطر اسے پاکستان کے لئے مفید قرار دیا کیونکہ یہاں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد کی بیوی نے کہا کہ انہیں اپنے شوہر کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ لشکر طیبہ کے مشہور رہنما حافظ سعید نے ہمیشہ جمہوریت کو خلاف اسلام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ یقین رکھنے والے لوگ الو ہیں کہ اسلام میں پارلیمنٹ کی اجازت دی گئی ہے۔ اگرچہ ان کی بات صرف فوج کو پسند آئی‘ لیکن یہ بات درست تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کو رجعت پسندانہ اسلامی تجاویز (جن میں سے حالیہ ترین تجویز ایسے نوٹ قبول نہ کرنے کے بارے میں جن پر قائداعظم کی تصویر کو نشان ذدہ کیا گیا ہو) کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے کیونکہ وہ تو اسلام میں تسلیم شدہ تفسیر کے اصولوں کی پیروی کر رہے ہیں۔

بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ انتہا پسندوں کی وجہ اسلام کی غلط تفسیر ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ انتہا پسندی اور تشدد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ (اسلام پسندوں کے بقول) مذہب کے جوہر یعنی شریعت کو قبول نہیں کرتے۔ (ہر ملک میں شریعت کی تعریف مختلف ہے)۔ بیسویں صدی کے آغاز ہی سے مذہبی طبقے اور اسلام پسندوں کا مزاج برہم ہے اور جب بھی فقہ کے بیان کردہ اسلام کو لفظ بہ لفظ لاگو نہیں کیا جاتا تو وہ عموماً تشدد میں پناہ لیتے ہیں۔ یہیں سے انتہا پسندی کا آغاز ہوا۔ جہاں تک اسلام کو جوںکاتوں لاگو کرنے کا سوال ہے تو نافذ کئے گئے بہت سے قوانین یا تو غلط استعمال ہوئے یا بالکل غیر موثر رہے جیسا کہ دیت یا قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کے قوانین۔ ان صورتوں میں اسلام پسندوں کا موقف ہے کہ وہ ملا عمر جیسی تشدد پسند پالیسیوںکے ذریعہ اقتدار میں آنے کے بعد ہی انہیں درست طور پر نافذ کریں گے۔ ذیل میں ہم کچھ انوکھے بیانات دے رہے ہیں جو پاکستان میں نفاذ اسلام کے ذمہ دار اداروں اور افراد نے جاری کئے۔

اللہ کی شان میں گستاخی:

روزنامہ جنگ کے مطابق‘ اسلامی نظریاتی کونسل اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو سزا دینے کی منظوری کے لئے سیشن بلائے گی۔ اجلاس میں یہ منظوری بھی دی جائے گی کہ کسی بھی عورت کو اپنے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ توقع ہے کہ پتنگ بازی‘ اعضاءکی منتقلی اور سگریٹ نوشی کو بھی ممنوع قرار دیا جائے گا۔

وزارت مذہبی امور کی جانب سے طالبان کی بت شکنی کی تعریف:

روزنامہ ”خبریں“ کے مطابق وزارت برائے مذہبی امور نے اسلام آباد میں فرمان جاری کیا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں قدیم مجسموں کو توڑ کر درست اقدام کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے وزارت سے شریعت میں اس بت شکنی کا جواز مانگا ہے۔ چنانچہ پاکستان نے افغانستان میں ان قدیم مجسموں کی تباہی کی حمایت تو کر دی لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستان میں موجود اس قسم کے مجسموںکے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے۔

عیسائی جلاد پر اعتراضات:

روزنامہ خبریں کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کو پھانسی دینے کے لئے عیسائی جلاد مقرر ہے۔ کونسل میں زیر غور آنے والے مسائل میں لڑکیوں کی مرضی کی شادی کا معاملہ بھی شامل تھا۔

جمعہ کی نماز کے دوران تمام کاروبار کی بندش:

روزنامہ دن کے مطابق وزارت مذہبی امور کو پاکستان میں نماز کے قیام کے لئے آرڈیننس تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس نے حکم جاری کیا تھا کہ جمعہ کی نماز کے دوران تمام کاروباری مراکز بند کر دیئے جائیں اورکسی کو بھی یہ قانون توڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ سارے ملک میں نماز اور اذان کا وقت ایک ہی ہو گا۔

وزیر مذہبی امور کی جانب سے پنجابی کانفرنس کی مخالفت:

روزنامہ انصاف کے مطابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور محمود غاز ی نے کہا ہے کہ پاکستان کے گاندھی نظریہ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لئے پنجابی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں منعقد ہونے والی پنجابی کانفرنس اسلام کو پس پشت ڈال کر علاقائیت کو فروغ دینے کا بھارتی منصوبہ ہے۔

پی ٹی وی پر گانوں کی مذمت:

روزنامہ جنگ کے مطابق‘ وزارت مذہبی امور نے وزارت اطلاعات کو سفارش بھیجی ہے کہ پی ٹی وی پر تمام گانوں اوررقص کے پروگراموں پر پابندی عائد کی جائے۔ وزارت کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی وی بھارتی ٹی وی چینلز کی پیروی میں عورتوں کے تھرکتے ہوئے بدن دکھا رہا ہے۔

نظریاتی کونسل کی جانب سے ”ولی“ کا مطالبہ:

روزنامہ خبریں کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے ولی کی مرضی کے بغیر لڑکی کے نکاح کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایسا کرنے والی لڑکیوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتیں۔ لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی ہی حمایت کی۔ کونسل کی دیگر آراءیہ تھیں کہ لڑکے لڑکیوں کے ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگائی جائے‘ پرائز بانڈ سمیت تمام لاٹریوں پر پابندی عائد کی جائے اور قرآن کی چھپائی کے لئے استعمال ہونے والے کاغذ کو دوبارہ قابل استعمال نہ بنایا جائے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر اسلامی نظریاتی کونسل کی تنقید:

روزنامہ دن کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے کہ سودی بنکاری کے خاتمے کا فیصلہ ایک سال کے لئے موخر کیا جائے۔ چیئرمین ایس ایم زمان کا کہنا ہے کہ یہ معاشی نہیں بلکہ قرآن اور رسول اللہ سے متعلق معاملہ ہے۔ کونسل نے قبل ازیں لڑکیوں کو ان کی مرضی سے شادی کی اجازت دینے کے حنفی فیصلے پر بھی تنقید کی تھی۔ نوائے وقت کے مطابق کونسل نے وزیر برائے مذہبی امور محمود غازی کے پیش کردہ اس منصوبے کو بھی مسترد کر دیا تھا کہ غریبوں کو زکوٰةکی رقم کاروبار میں لگانے کی اجازت دی جائے۔ کونسل کا موقف تھا کہ زکوٰة کو کسی قسم کی سرمایہ کاری میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

تارکین نماز کو سزا دی جائے:

روزنامہ خبریں کے مطابق وزارت مذہبی امورنے ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ نامی ایک نئے قانون کا مسودہ منظوری اور نفاذ کے لئے کابینہ کو بھجوایا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر کسی کو نماز ادا کرنا پڑے گی۔ سرکاری ملازم نماز کے اوقات میں تمام کام چھوڑ دیں گے اور انہیں نماز ادا نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ ہو گا۔ تمام سطحوں پر علماءکمیٹیاں تارک نماز مسلمانوں کو سزا دینا یقینی بنائیں گی۔ تین مرتبہ تنبیہ کے بعد بھی نماز نہ پڑھنے والے کو جرمانہ کیا جائے گا۔

انشورنس غیر اسلامی ہے:

روزنامہ خبریں کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے ہر قسم کی انشورنس کو اسلام کے خلاف اور اسے ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ پالیسی کے لئے اقساط کی ادائیگی مضاربہ کے تحت کی جائے تاکہ اسے اسلامی بنایا جا سکے۔ دوسری طرف پاکستان میں مضاربہ کے کاروبار کو خسارے کا سامنا ہے ۔

الکحل سے پاک بیئر غیر اسلامی ہے:

روزنامہ جنگ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ غیر نشہ آور بیئر کے نام سے فروخت کئے جانے والے مشروبات اسلام میں جائزنہیں۔ کونسل نے کہا ہے کہ ”بیئر“ کا نام استعمال کرنا غلط اور حرام ہے۔

پرچم پر کلمہ:

روزنامہ خبریں کی رپورٹ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے 23 سال قبل قومی پرچم تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی جس پر حکومت نے آج تک عمل نہیں کیا۔ تجویز دی گئی تھی کہ قومی پرچم پر اللہ اکبر اور کلمہ طیبہ لکھا جائے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ پرچم کو اسلامی بنانے کی اس اچھی تجویز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

عورتوں کے بغیر اشتہارات:

روزنامہ جنگ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ اشتہارات میں عورتوں کو پیش کرنے پر پابندی عائد کی جائے اور مصنوعات کے فروغ کے لئے صرف مردوں کو اشتہارات میں دکھایا جائے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ عورتوں کو ایئرہوسٹس کے طور پر کام کرنے کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن انہیں چاہئے کہ برقعہ پہن کر فرائض انجام دیں۔ اس کے علاوہ کسی مرد درزی کو عورتوں کے کپڑے سینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اخبار کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کی اے سی آر میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کا خانہ بھی شامل کیا جائے اور نماز ادا نہ کرنے والے ملازمین کو ترقی نہ دی جائے۔

دفاعی جنگ جہاد نہیں:

روزنامہ جنگ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ جہاد کو صرف دفاعی جنگ قرار دینا غلط ہے‘ بلکہ جنگ میں خود پہل کرنا بھی جہاد ہے۔ روزنامہ نوائے وقت کے مطابق کونسل نے کہا کہ جہاد کے خلاف مغربی پراپیگنڈہ نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے لیکن سب کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ افغانستان نے جہاد میں نئی جان ڈال دی۔ ایمان کی اعلیٰ ترین علامت جہاد میں حصہ لینا ہے۔ مسلمانوںکے انحطاط کی ایک وجہ ترکِ جہاد بھی ہے۔

کرنسی پر پابندی لگا دی جائے گی:

روزنامہ جنگ کے میگزین میں لشکرطیبہ کے سربراہ حافظ سعید کا یہ بیان شائع کیا گیا کہ جب اسلامی حکومت پاکستان میں رائج ہو گی تو تمام کرنسی کو ختم کر کے سونے اور چاندی کے سکے جاری کئے جائیں گے۔ ان کے مطابق قرآن کی موجودگی میں کسی آئین کی کوئی ضرورت نہیں لہذا آئین کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ خبریں کے مطابق توہین رسالت کے مرتکب یوسف کذاب کو لاہور سیشن کورٹ نے موت کی سزا سنائی کیونکہ اس نے رسول اللہ کا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

بے نماز افسران سے چھٹکارا:

روزنامہ پاکستان کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارش کی ہے کہ حکومت بے نماز سرکاری ملازمین کو فارغ کر دے اور جن جگہوں پر لوگ نماز ادا کرتے ہیں ان کی ترقی کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔

اتوار کی چھٹی کی مخالفت:

روزنامہ پاکستان کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلام آبادمیں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان میں جمعہ کے روز چھٹی بحال کی جائے اور لاہور کے کچھ دکانداروں نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے۔ تاہم کونسل کے رکن سید افضل حیدر نے اصرار کیا کہ حکومت جمعہ کی چھٹی بحال کرنے کی بجائے یہ امر یقینی بنائے کہ لوگ جمعہ کی نماز ادا کریں۔

اسلام میں جیل جائز نہیں:

روزنامہ خبریں کے مطابق اسلام نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ کسی کو جیل میں بھیجنا خلاف شریعت ہے۔ کونسل نے سفارش کی کہ جیل کی سزا کا خاتمہ کیا جائے۔ ابتدائی اسلام میں جیلیں‘ پولیس اور بنک موجود نہیں تھے۔ چوروں کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments