بیوی کو اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دینی چاہیئے


آج ہمارے اسلامی اور مشرقی معاشرے میں دوسری شادی کو ایک گالی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ اللہ جو اس دنیا کا بنانے والا ہے جو کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ وہ اپنے بندے کو چار شادیوں کی اجازت دے رہا ہے۔ کیونکہ وہ خود مرد اور عورت کا تخلیق کار ہے اسے اپنی بنائی شے کی فطرت کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسے معلوم ہے مرد کی فطرت میں ایک عورت کے ساتھ زیادہ عرصہ گزارہ کرنا ممکن نہیں۔ اب آپ لوگ اس بات پر مجھ سے بحث کریں گے۔ کہ اگر انسان ایک خاتون سے پیار کرتا ہے تو وہ کبھی دوسری عورت کی طرف منہ بھی نہیں کرے گا۔ ایسا تب تو ممکن ہے اگر مرد نہایت شریف اور نیک ہو اور اسلامی اقدار کا پابند ہو پھر تو وہ ایک عورت پر قانع رہتا ہے۔

کیونکہ انسان کی فطرت ہے وہ کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کرتا ہے۔ اپنا آرام سکون اس کے لیے صرف کردیتا ہے لیکن وہ چیز جب اس کے تصرف میں آ جاتی ہے تو وہ کچھ عرصہ بعد اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔ وہ پھر کسی نئی شے کے لیے تگ و دو شروع کر دیتا ہے۔ یہ ایک سائیکل ( Cycle) ہے جو چلتا رہتا ہے۔

یہ فطرت مرد کی بھی ہے وہ کسی ایک عورت کے لیے پاگل ہوا جاتا ہے۔ لیکن جب وہ خاتون اسے مل جاتی ہے۔ تو کچھ عرصہ ( کبھی کبھی یہ کچھ عرصہ سالوں پر بھی محیط ہو جاتا ہے ) تو یہ محبت پروان چڑھتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا جب وہ اسی خاتون جس کے بغیر وہ زندگی کا تصور تک نہیں کرتا سے بیزار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ خاتون جس کے حسن کے سامنے وہ چاند ستاروں کے حسن کو ماند قرار دیتا ہوتا ہے۔ وہ کسی اور کو چاند ستاروں سے تشبیہ دینے نکل پڑتا ہے۔

آپ میں سے بہت سے اس چیز کا انکار کریں گے۔ میرا آپ کو مشورہ ہے اپنے عزیزواقارب اور دوستوں میں نظر دوڑائیں آپ کو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ کتنی لوگ ملیں گے جو بیوی کے ہوتے ہوئے بھی باہر منہ ماریں گے۔ یہاں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کی پسند کی شادیاں ہیں۔ چلتے چلتے ایک اپنا واقعہ پیش کئیے دیتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم اپنے ایک قریبی دوست جس کی شادی کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ شادی بھی وہ جس میں انہیں نے خود گھر والوں سے کہا آپ اپنے بیٹے کو فلاں لڑکی والوں کے ہاں بیاہ دیجئے۔

اور وہ کسی کام کے سلسلے میں بازار گئے۔ وہاں کچھ خوبرو دوشیزائیں نظر آئی۔ تو وہ موصوف سارا کام چھوڑ کر ان کی راہ ہو لیے۔ ایسا نہیں کہ صرف ہمارا دوست ہی ادھر مائل تھا۔ دوسری طرف سے بھی مکمل اشاروں کناروں میں ہاں ہو رہی تھی۔ ہم نے اس کے واپس آنے پر دریافت کیا آپ کی تو پسند کی شادی نہیں تھی۔ پھر بھی آپ باہر تانا جھانکی کررہے ہیں۔ فرمانے لگے آپ نہیں جانتے اصل نشہ ہی عورت ہے۔ ہم نے اس جواب میں جو کہا وہ حفظ مراتب کے تحت اور دوستی کے تقدس کے پیش نظر یہاں لکھ نہیں رہے۔

اس کے برعکس عورت ایک مرد پر ساری زندگی اکتفا کر لیتی ہے۔ میرا یہی ماننا ہے عورت کی فطرت میں وفا اور محبت ہوتی ہے۔ وہ کس مرد کو چن لے پھر اس کے ساتھ ساری زندگی گزار دیتی ہے۔ وہ شخص خیال رکھنے والا محبت کرنے والا ہو تو یہ اس عورت کے لیے سونے پر سہاگہ ہوتا ہے ورنہ عورت کمپرومائزز کے ساتھ بھی زندگی گزار دیتی ہے۔ مجھ سے بحث میں الجھنے سے قبل اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپ کو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔

لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد بیوی اور بچوں کے ہوتے ہوئے بھی زیادہ تر باہر منہ لازمی مارتے ہیں۔ بیوی کو اکثر نہیں میں کہتا ہوں زیادہ تر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ دوسری شادی کی اجازت پھر بھی نہیں دیتی صرف اس خوف سے کہ میرا حق چھن سکتا ہے میرا شریک آ جائے گا۔ جیسا بھی ہے قانونی طور پر تو میں ہی اس کی زوجہ ہوں۔ میری تمام ضروریات زندگی تو پوری ہو ہی رہی ہیں۔ عورت اس شے کو اپنا مقدر جان کر خاموش ہو جاتی ہیں۔ اسے مرد کا باہر جانا قبول ہے لیکن کسی کی سوتن بننا منظور نہیں ہے۔ کیونکہ شریک تو کوئی بھی نہیں برداشت کرتا۔

عورت کے سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش رہنے اور اسی مرد کے ساتھ منسلک رہنے کی بڑی وجہ عورت کے محکے والی بھی ہیں۔ کیونکہ ہمارے سماج میں عورت کو شادی کے وقت سامان دے کر سمجھا جاتا ہے ہم نے اس کا حق ادا کردیا ہے۔ اور اس کو جائیداد میں سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی خاتون اس چیز کا سوال کرلے تو محکے والوں کی طرف سے اس سے ناتا ہی ٹوڑنے کی دھمکی دے ڈالی جاتی ہے۔ اسی لئے خواتین صرف فساد فی المحکہ کے خوف سے کہہ دیتی کہ مجھے والدین کی جائیداد میں سے حصہ نہیں چائیے۔

بلکہ میں اپنی رضا سے اپنا حصہ اپنے بھائیوں کے نام کرتی ہوں۔ اب اس کے بعد عورت کا اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے بھی انحصار اپنے شوہر پر ہوتا ہے۔ وہ سمجھتی ہے اگر میں نے شوہر سے باہر منہ مارنے والی بات کی تو ہو سکتا ہے یہ مجھے چھوڑ دے پھر میں کہاں جاؤں گی۔ کون میرا سہارے بنے گا۔ یہی خوف عورت کو اس مرد سے منسلک کئیے رکھتا ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے۔ جب معلوم ہو کہ شوہر کا افئیر چل رہا ہے۔ عورت دل بڑا کرے اور اپنے شوہر کو اجازت دے دے کہ اگر اس کو دوسری شادی کرنی ہو تو کر سکتا ہے اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ اپنی اس سوتن کے ساتھ بھی رہ سکتی ہے۔ اس سے مرد کبیرہ گناہ سے بچ جائے گا۔ اور شاید دوسری خاتون کا خیال دل سے نکال دے۔

ہمارے معاشرے میں مرد دوسری شادی کرکے اپنے رشتہ کو پاک نام دینے سے اس لئے بھی گھبراتا ہے کہ دوسری شادی کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے۔ دوسری شادی والے پر طنز کے نشتر برسائے جاتے ہیں۔ جیسے اس نے کوئی بہت بڑا گناہ کر لیا ہے۔ دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ عامر لیاقت اور اقرار الحسن نے بہت سے لوگوں کی طرح گناہ کا راستہ چھوڑ کر دوسری شادی کی تو کیا ہوا ان دونوں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا۔ جیسے یہ دونوں حضرات قومی مجرم ہیں۔

اس لئے ان پر طعنہ و تشنیع کرنا ہر کسی نے اپنا فرض سمجھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان دونوں کا حوصلہ بڑھایا جاتا کہ ان دونوں نے گناہ کی بجائے نیکی کا راستہ چنا ہے اور اپنے رشتے کو ایک پاک نام دیا ہے۔ اس سے گناہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی۔ لیکن آفرین ہے ہماری سوچ پر۔ دوسری شادی نہیں منظور، گناہ منظور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments