میں اکثر بھول جاتی ہوں


میں اکثر بھول جاتی ہوں
میں اکثر بھول جاتی ہوں۔
وقت کی پاپندی کرنا۔
دور پار کی پہچان والے لوگوں کے نام۔
درازوں میں رکھے ہوئے ضروری کاغذات۔
اور اس کے علاوہ بہت ساری ایسی اشیا ہیں جو میں کہیں رکھ کے بھول چکی ہوں۔ اس میں ایسی کوئی انہونی بات بھی نہیں۔ یہ مسئلہ تو کئی لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ مگر مجھے اب ایسا لگنے لگا ہے کہ میرا یہ بھلکڑ پن میری کارکردگی پر اثرانداز تو ہو ہی رہا ہے، اس کے علاوہ بعض اوقات سماجی حلقوں میں بھی میرے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتا ہے۔

ابھی کچھ عرصے پہلے کی با ت ہے کہ میں عزیز و اقارب کے ساتھ ایک تقریب میں مدعو تھی۔ اچانک کسی کونے سے ایک خاتون نمودار ہو ئیں اور میرے گلے لگ گئیں۔ یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ میرے گلے پڑ گئیں۔ ان کا میرے لیے محبت اور خلوص دیدنی تھا اور ادھر میں اندر ہی اندر غلطاں و پیچاں تھی کہ:

”یا اللہ یہ ہیں کون؟ میری ان سے کب جان پہچان ہوئی تھی؟ ان کا کوئی بھلا سا نام بھی ہو گا! “
پر جناب کہاں! کیا مجال تھی کہ ہماری یاداشت کے کسی کونے میں ان سے شناسائی کی کو ئی ہلکی سی جھلک دکھائی دی ہو۔ وہ تو شکر ہو ا کہ قریب کھڑی میری خالہ زاد بہن نے یہ مشکل بھانپ لی اور کمالِ خوبی سے گفتگو سنبھال لی۔ بعد میں میری بہن کہنے لگی کہ :

”باجی آپ بہت غائب دماغ ہیں۔ یا پھر آپ لوگوں کو اہمیت نہیں دیتیں۔ یقیناًخوش اخلاق تو آپ ہیں ہی اور لوگوں سے بہت جلد دوستی بھی کر لیتی ہیں۔ لیکن جب ذرا وہ منظر سے ہٹتے ہیں آپ ان کے نقش اپنے ذہن سے ہی مٹا دیتی ہیں۔ “

اس کی باتیں سن کر میں تو سناٹے میں آگئی۔ توبہ ہے بھئی، ایک ذرا سی بھول پر میرے بہن نے تو میری شخصیت کے بخیے ہی ادھیڑ کر رکھ دیے تھے۔ مگر مجھے بھی اس طنز کو اتنا سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ذاتی تنقید کو ہمیشہ مثبت اندازِ نظر سے دیکھیے اور اپنی اصلاح کر لیجیے۔ مگر ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم مذاق میں بھی کہی ہوئی اپنے خلاف بات سن کر غصے سے بھڑک اٹھتے ہیں۔ اور اپنے ناقدین کے لیے ہمیشہ کے لیے دل میں کدورت پال لیتے ہیں۔

کدورت کی بھی اچھی کہی! کسی کے لیے دل میں میل آجائے تو بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ کینہ اگر دل میں زیادہ دیر رہے تو دکھ بن جاتا ہے۔ دل کے دکھ زندگی کو بوجھل بنا دیتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں بھول جانا چاہیے۔

برے رویے۔
بے وفائیاں۔
طنز یہ باتیں۔
کیا رکھا ہے ان سب کو یاد رکھنے میں سوائے اس کہ یہ یادوں کی پٹاری میں کانٹے بن کر چھبن دیتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ برا حافظہ ایک کباڑیے کی دکان کی طرح ہو تا ہے جس میں چیزیں بے ترتیبی سے پڑی ہوتی ہیں۔ جبکہ اچھا حافظہ ایک لائیبریری کی طرح ہوتا ہے جو یاداشتوں کو منظم طریقے سے محفوظ کرتا ہے۔ بعض انسان ایسے ہیں جو چیزوں کو جلد یاد کرلیتے ہیں مگر پھر جلدی بھول بھی جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ چیزوں کو دیر سے یاد کرتے ہیں مگر دیر تک اپنے حافظے میں محفوظ رکھتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین ہمارے جیسے لوگوں کے بارے میں خاموش ہیں جو چیزوں کو دیرسے یاد کرتے ہیں پر اس کے ساتھ ہی چیز یں فٹ فٹافٹ بھول بھی جاتے ہیں۔ خیر یہ ان ماہرین کی مرضی!

سائنسی تحقیق سے یا د آیا کہ مشہور برطانوی اخبار انڈیپینٹ نے 2017ا یک مقالے میں لکھا ہے کہ اصل میں ہمارے حافظے کا بنیادی مقصد فیصلہ سازی میں مدد دینا ہے۔ ہمارا ذہن جب کچھ باتیں بھول جاتا ہے تو وہ ضروری مسئلوں کو الجھانے میں مصروف ہوتا ہے۔ اسی مقالے میں آئن سٹائن کی ذہانت کے ساتھ ساتھ اس کی غائب دماغی کا بھی ذکر ہے۔ یعنی آپ ذہین ہونے کے ساتھ غائب دماغ بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ نے غائب دماغ پروفیسر کے بارے میں کئی لطیفے تو سن رکھے ہوں گے۔

ایک ایسے ہی غائب دماغ پروفیسر کو میں بھی جانتی ہوں۔ ان کو جانوروں میں بہت دلچسپی تھی۔ گھر میں انہوں نے بہت سے کتوں اوربلیوں کو پالاہواتھا۔ حسن اتفاق سے ان کی رہائش گاہ کے پیچھے ایک جنگل تھا۔ کبھی کبھار ایک نیولا ان کے گھر کی باڑ کے پاس آجایا کرتا۔ پروفیسر صاحب نیولے کی حرکات و سکنات کا بہت دلچسپی سے مشاہدہ کرتے۔ ایک دن کلاس میں لیکچر کے دوران پروفیسر صاحب کہنے لگے : ”نیولا ایک بے فکرا جانور ہے۔ وہ کسی پر جان بوجھ کر حملہ نہیں کرتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے خودی ہوتی ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ اسے مرنا ہے۔ اس کی یاداشت تلخ ماضی سے مبرا ہے۔ ہمیں جانوروں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی زندگی کے لمحوں کو تعصبات سے پاک کر دینا چاہیے۔ “ پروفیسر صاحب کی بات میں وزن ہے۔ اپنے ذہن کو پر سکون رکھنے کے لیے ہمیں یاد رکھنا چاہیے :

اچھے رویے۔
دوسروں کے احسانات۔
نیکیاں اور وفا شعاریاں۔
یہ وہ یادیں ہیں جو آپ کے حافظے میں سر سبز پودے بن جاتی ہیں اور ان پودوں کی مہک آپ کے لیے جان فزا ہوتی ہے۔

بہرحال اپنی کمزور یاداشت کی بہتری کے لیے روزانہ نہار منہ سات بادام کھانے کے علاوہ میں نے سوچ لیا ہے کچھ اور بھی کروں گی۔ کسی سہیلی نے مشورہ دیا ہے کہ مجھے اپنے سمارٹ فون کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ ہر رات سونے سے پہلے فون میں اگلے دن کی یاددہانیوں کا انداج کرلینا چاہیے۔ یہ سب یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ روزانہ کے مندرجات لکھنے کے لیے بھی تو ایک یاد دہانی چاہیے۔ ”ہاں تو اس یاد دہانی کے لیے بھی فون کو ہی استعمال کر نا ہو گا“۔ میرے سہیلی نے جھٹ سے اگلا مشورہ بھی دے دیا۔

مشکل یہ نہیں ہے کہ روز مرہ کے ضروری کام وقت پر ہوں۔ زندگی تو پنی ڈھب سے چلی جاتی ہے۔ اس میں بھول، چوک، پھرتیاں اور بھاگ دوڑ سب شامل ہے۔ ہماری زندگی میں سمارٹ ٹ ٹیکنالوجی کا کچھ زیادہ ہی عمل ا دخل ہو گیا ہے۔ کیا یہ الیکٹرک کھلونے میری روح میں چھپی تلخ یادوں کو مٹانے میں بھی مدد گار ہو سکتے ہیں؟ انہی یادوں کو بھلانے کے لیے ہی تو میں بار بار بھول جاتی ہوں شناسائی کے روگ، ضروری کام اور ارد گرد پھیلی ہو ئی مادی دنیا کے جھمیلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments