محبت، جنس اور شادی کی رومانی تکون


ڈاکٹر زاہد کے خط کا جواب

ڈاکٹر زاہد صاحب!

آپ بہت کسرِ نفسی سے کام لے رہے ہیں۔ میں آپ کے افسانے اور کالم دونوں بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ میری نگاہ میں آپ ایک صاحبِ طرز لکھاری اور ایک حق گو دانشور ہیں۔ یہ میری خوش بختی کہ آپ نے مجھے، ہم سب، کی وساطت سے، محبت اور جنس کی نفسیات، کے نام سے ایک ادبی محبت نامہ لکھا اور میرے رائے چاہی۔

میری نگاہ میں محبت جنس اور شادی ایک رومانی تکون کے تین کونے ہیں۔ روایتی لوگ اپنے رشتوں میں ان تینوں کونوں کو ملانے کی بہت کوشش کرتے ہیں اور بعض عارضی طور پر ملانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کونوں میں فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور پھر وہ ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ روایتی شادیوں میں شادی تو رہ جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ محبت اور جنس جوڑوں کی زندگی سے غائب ہو جاتی ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں میں ان گنت ایسے جوڑوں سے ملا ہوں جن کی شادیاں
LOVELESS AND SEXLESS MARRIAGES
بن چکی تھیں۔

مشرقی جوڑے شادی کو اور مغربی جوڑے محبت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور جب شادی میں محبت مر جائے تو وہ علیحدہ ہو جاتے ہیں اور ایک نئی محبت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

آپ نے انسانی تاریخ کے مختلف کلچرز میں کثرتِ ازدواج کا ذکر کیا ہے جو
POLY GAMY AND POLYANDRY
کی روایات ہیں۔ انسانی جبلت اور نفسیات کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انسان بنیادی طور پر مونوگیمس نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب قبائل میں ایک عورت کے کئی مردوں سے رومانی تعلقات ہوتے تھے اور جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو وہ گاؤں کی سب عورتوں کو۔ ماں اور۔ ماما۔ کہتا تھا۔ اس وقت انسانوں کو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ انسانی بچے کی پیدائش کا اس جنسی رشتے سے کوئی تعلق ہے جو اس پیدائش سے نو ماہ پہلے ہوا تھا۔

جب انسان نے زندگی کا یہ راز جانا تو مردوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کہیں کہ یہ میری بیوی ہے۔ یہ میرا بچہ ہے۔ کیونکہ وہ اس بچے کو اپنا نام دینا چاہتے تھے۔ یہ پدر سری نظام کی خودغرضی کی انتہا تھی۔ نو مہینے محنت ماں کرے اپنا خون ماں پلائے اور جب بچہ پیدا ہو تو اس کو باپ کا نام دیا جائے۔ میں کئی ایسے جوان بچیوں اور بچیوں کو جانتا ہوں جن کی ماؤں نے مجھے رازدارانہ طور پر بتایا ہے کہ جس مرد کو وہ اپنا باپ سمجھتے ہیں وہ ان کا باپ نہیں ہے۔

ایک شادی کے تصور اور روایت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اگر ماں باپ ایک گھر میں اکٹھے رہیں گے تو بچوں کو ایک محفوظ گھر اور ماحول ملے گا اور ان کی مناسب تربیت ہو سکے گی۔ لیکن اس خیال پر زیادہ لوگ زیادہ دیر تک عمل پیرا نہ ہو سکے اور گھر میں شریکِ حیات ہوتے ہوئے گھر سے باہر رومانی رشتوں میں دلچسپی لے کر دو کشتیوں میں سوار ہو گئے۔ یہ علیحدہ بات کہ وہ رشتے اکثر صیغہِ راز میں رہے کیونکہ ہم آج بھی ایک منافق معاشرے میں زندہ ہیں جہاں سچ بولنے والے سنگسار ہو سکتے ہیں۔

روایتی شادی کی روایت پر پچھلی دو صدیوں میں چاروں طرف سے حملے ہوئے ہوئے۔

ایک حملہ کمیونسٹوں کی طرف سے ہوا۔ مارکس کا خیال تھا کہ شادی ذاتی جائیداد اور ملکیت کے تصور کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ میرا گھر۔ میرا کھیت۔ میری بیوی۔ میرا بیٹا۔ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مارکس کا یہ بھی خیال تھا کہ انسان آزاد ہے۔ اگر چند لوگ شادی کر لیتے ہیں اور اصحابِ ثروت چند عورتوں کو بیویاں بنا کر گھر بٹھا لیتے ہیں تو جو مرد شادی نہیں کر سکتے ان کے پاس اپنی جنسی تسکین کے دو راستے رہ جاتے ہیں۔ یا وہ کسی طوائف کے پاس جاتے ہیں اور یا کسی اور کی بیوی کے ساتھ سوتے ہیں۔ مارکس کی نگاہ میں

MONOGAMY۔ PROSTITUTION۔ ADULTERY
بھی رومانی تکون کے تین کونے ہیں جنہیں روایتی اور مذہبی لوگ آج بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

روایتی شادی پر دوسرا حملہ انارکسٹوں کی طرف سے تھا جو مذہب اور ریاست کے ساتھ ساتھ شادی کی روایت کے بھی خلاف تھے۔ ایک معتبر اور محترم انارکسٹ ایما گولڈمین نے اس موضوع پر ایک خوبصورت مقالہ آج سے سو سال پہلے 1910 میں لکھا تھا جس کا عنوان بھی، شادی اور محبت، تھا۔

پاکستانی دانشور اور مترجم محمد مظاہر نے نہ صرف ایما گولڈمین کی سوانح عمری کا ترجمہ، سرخ رو، کے نام سے کیا ہے بلکہ اس خوبصورت مقالے کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ چند جملے حاضر ہیں، بیوی بنائی جانے والی اور ماں بننے والی لڑکی کو اس مقابلے کی دنیا میں اپنے جس واحد قیمتی اثاثہ سے یکسر بے خبر رکھا جاتا ہے، وہ ہے، جنس کاری۔

یوں وہ اس شخص کے ساتھ زندگی بھر کے رشتے میں داخل ہوتے ہی ایک نہایت فطری صحتمند اور جبلی جذبہ جنس کے تحت خود کو ایک صدمے گھناؤنے پن اور ایسی برہمی میں پاتی ہے جسے بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہماری ناخوشی غم و اندوہ رنج و الم کے علاوہ جسمانی مار پیٹ جو شادی کے طفیل ہوتی ہے یہ سب اسی جنسی معاملات سے مجرمانہ بے خبری کا نتیجہ ہوتا ہے جس پر ایک عظیم نیکی کہہ کر مدح و ثنا کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ اسے کوئی مبالغہ نہ سمجھا جائے جب میں یہ کہتی ہوں کہ لاتعداد گھر محظ اس قابل مذمت امر کی وجہ برباد ہوتے ہیں۔

تاہم عورت اگر آزاد ہو چکی ہے اور اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ حکومت اور کلیسا کی اجازت کے بغیر جنس کی بھول بھلیوں کو سمجھے تو اس کی اتنی لعنت ملامت ہوگی کہ وہ کسی شریف آدمی کی بیوی بننے کے لائق نہ سمجھی جائے گی۔

روایتی شادی پر تیسرا حملہ فیمینسٹوں کی طرف سے ہوا۔ فرانسیسی فیمنسٹ سیماں دئی بوا کا موقف تھا کہ موجودہ سماجی اور معاشی، مذہبی اور سیاسی حالات کی وجہ سے شادی کے رشتے میں مرد عورت کا رشتہ دوستی اور بے لوث محبت کی بجائے مالک اور کنیز کا ہو گیا ہے۔ سیماں دی بوا نے اپنے محبوب فلاسفر ژاں پال سارتر سے پچاس سال کی دوستی اور محبت کا رشتہ نبھایا لیکن روایتی شادی نہیں کی اور ثابت کیا کہ محبت کا رشتہ شادی کے رشتے سے کہیں زیادہ معتبر اور پائیدار ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد!

میری نگاہ میں شادی کی روایت آہستہ آہستہ اپنی کشش اور جازبیت کھوتی جا رہی ہے۔ مشرق میں شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو برداشت کر رہے ہیں اور مغرب میں ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر کسی اور محبوب کو تلاش کر رہے ہیں۔ مشرق میں بھی جو عورتیں معاشی طور پر خود مختار اور جذباتی طور پر آزاد ہو رہی ہیں وہ شوہروں کی دوست اور محبوبہ بننا چاہتی ہیں اور جب ناکام ہوتی ہیں تو طلاق لے لیتی ہیں۔ ان کے لیے اکیلے اور تنہا رہنا شادی شدہ ہو کر احساسِ تنہائی کا شکار ہونے سے بہتر ہے۔ یہ رجحان ان مشرقی عورتوں میں اور بھی زیادہ ہے جو مشرق سے مغرب میں آ کر بس گئی ہیں۔ اس بات سے بہت سے مرد بہت پریشان ہیں کہ ان کی بیویاں اب ان کے قابو میں نہیں رہیں۔

ڈاکٹر زاہد!

بہت سے انسانوں، قوموں اور معاشروں نے اس نفسیاتی حقیقت کو قبول نہیں کیا کہ روایتی انسان ایک محبت نبھانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ غیر روایتی انسان یا تو شادی اور محبت کے بغیر بھی خوشحال اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں اور یا ایک وقت میں ایک سے زیادہ محبتیں کر سکتے ہیں۔

یہ خط ثقیل ہوتا جا رہا ہے اس لیے اسے میں اپنے انگریزی کے دو جملوں پر ختم کرتا ہوں امید ہے پسند آئیں گے۔

آپ کا مداح
خالد سہیل

WHEN PEOPLE LOVE MORE THAN ONE PERSON LOVE MULTIPLIES IT DOES NOT DIVIDE
IN AN INTIMATE RELATIONSHIP FRIENDSHIP IS THE CAKE ROMANCE IS THE ICING

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments