سندھ کے معروف ناشر، پوکر داس تھانور داس شکارپوری


سر زمینِ سندھ کی بے پناہ انفرادی حیثیتوں میں سے ایک ممتاز حیثیت یہ ہے، کہ برِ صغیر میں چھپائی اور اشاعت کا آغاز ”سندھ کے پیرس“ شکار پور سے ہوا۔ پاک و ہند میں سب سے پہلے چھاپا خانے کی تنصیب شکار پور میں ہوئی۔ شکار پور کی اور بھی بہت سی منفرد حیثتیں ہیں، جن کو قلم  بند کیا جائے، تو اِس جیسی سیکڑوں نگارشات اور کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

برِ صغیر کی پہلی لیڈی ڈاکٹر، سارہ صدیقی کا یہاں پیدا ہونا۔ ’فلائی اوور‘ کے تصّور کا آغاز اور ہند و پاک کے پہلے فلائی اوور کی شکار پور میں تعمیر (یہ فلائی اوور آج تک موجود ہے)۔ برِ صغیر کا سب سے بڑا ”چھتا ہوا بازار“ (کَوَرڈ مارکیٹ) اور دیگر ممتاز حوالے شامل ہیں، جو شکار پور کا اعزاز ہیں۔

تقسیمِ ہند کے وقت سندھ میں صرف تین انٹرمیڈیٹ کالج موجود تھے۔ ان میں ڈی۔ جے۔ سندھ کالج کراچی، گورنمنٹ کالج، کاری موری حیدر آباد اور سی اینڈ ایس کالج شکار پور شامل ہیں۔ گویا شکار پور ہمیشہ ہی سے علم و ادب کا محور و مرکز رہا ہے۔

دُنیا بھر میں اشاعت کی تاریخ کا مطالعہ کریں، تو اس بات کا ادراک ہوتا ہے، کہ قدیم دورمیں ناشر وہی رہے، جن کے اپنے چھاپا خانے تھے۔ اُن میں سے بہت سارے علمی و ادبی حوالے سے جانے پہچانے نام نہیں بھی تھے، بلکہ ”سیٹھ“ تھے، اس کے باوجود اُن میں اس حد تک علمی ذوق اور حسِ انتخاب تھی، کہ انہوں نے جو تاریخی کتب چھاپیں اور شایع کیں، اُس معیار کی کتابیں آج کے دور کے محققین تک کے لئے استفادے کا باعث ہیں۔

پوکر داس تھانور داس، سندھ ہی کے نہیں، برِصغیر ہند و پاک کے نام ور ناشر تھے۔ وہ 1868ء میں شکار پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ’پوکر داس‘، جب کہ ان کے والد کا نام ’تھانور داس‘ تھا۔ وہ مختلف اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد محکمہء تعلیم میں ”منشی“ مقرر ہوئے، جہاں اُن کی تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے اُن کو اپنی ملازمت کے علاوہ کوئی اور کاروبار کرنے کے لئے سوچنا پڑا۔ اُنہوں نے یکم جنوری 1886ء سے کتب فروشی کا پیشہ اختیار کیا اور اپنی ان تھک محنت سے اپنے کاروبار کو فروغ دے کر، کتابوں کی اشاعت کا کام شروع کیا۔

جولائی 1889ء میں پوکر داس نے، منشی خوشی رام کے ساتھ مل کر ”ملاّ اور موّالی“ کے عنوان سے ایک مزاحیہ قصّہ، کتابچے کی صورت میں شایع کیا، جو اُن کی اشاعتی خدمات کا نقطہء آغاز تھا۔ ابتدائی دور میں پوکر داس کی شایع شدہ کتب شکار پور میں قائم جیٹھا نند کی لیتھو گرافی پریس میں چھپیں۔ اس چھاپا خانے کا نام ”شکار پور پریس“ تھا۔ اس کے علاوہ اُن کی کتب ”البرٹ پریس سکھر“، اریڈ اسٹیم لاہور، مفیدِ عام پریس لاہور، خادم التعلیم اسٹیم پریس لاہور، ہندوستان پریس لاہور، کاشی رام پریس لاہور اور دیگر چھاپا خانوں میں بھی چھپیں۔

پوکر داس کی جانب سے دوسرے چھاپا خانوں سے کتابیں چھپوا کر، شایع کرنے کا یہ سلسلہ کم و بیش 12 سال تک جاری رہا۔ کاروبار میں منافع کے بعد پوکر داس نے 1898ء میں شکار پور میں اپنے محلے ”نوشہرہ در“ میں ذاتی چھاپا خانہ لگایا۔ اُنہوں نے اس کا نام ”سندھ پرنٹنگ پریس“ رکھا۔ آج بھی پوکر داس کی شایع شدہ کتب میں، اس پریس کا پتا ”سندھ پرنٹنگ پریس، نوشہرہ در۔ شکار پور“ درج ملتا ہے۔ اس چھاپا خانے اور اپنے اشاعتی ادارے کے ذریعے اُنہوں نے کم و بیش نصف صدی تک متعدد، متنوّع کتب شایع کر کے سندھی زبان و ادب کے فروغ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

پوکر داس کی شایع شدہ کتب کی کتابت کا کام، شکار پور میونسپلٹی کے ایک ملازم میاں رب رکھیو، دُر محمّد، حاجی اویس اور آخوند حاجی آدم کیا کرتے تھے۔

پوکر داس تھانور داس نے درسی، مذہبی، دھرمی، ادبی اور دیگر علوم اور موضوعات پر بے شمار کتابیں چھاپیں، جن میں علمِ رمل، علمِ نجوم اور علمِ جفر سے متعلق کتابیں اور جنتریاں بھی شامل ہیں۔ ادبی کتب میں انہوں نے نظم و نثر کی بے شمار کتابیں شایع کیں۔ سندھی تاریخ و ادب کی لاتعداد کتابیں، پہلی بار پوکر داس ہی نے چھاپیں۔ ان کے بعد میں متعدد ایڈیشنز شایع ہو کر سامنے آ چکے ہیں۔ 1893ء میں اُنہوں نے شکارپور کے معروف حکیم، میاں محمّد اسلم علوی کی طِب پر لکھی ہوئی اہم کتب شایع کیں۔ ان میں ”تحفة العاشقین“، ”مخزن الادویات“ اور ”قرابادینِ علوی“ بھی شامل ہیں۔

پوکر داس نے صرف سندھی ہی میں نہیں، بلکہ فارسی، سنس کرت، کاٹھیاواڑی، عربی اور انگریزی میں بھی کئی کتابیں شایع کیں۔ ان کتب میں گر مکھی اور دیو ناگری رسم الخط میں شایع ہونے والی کتب بھی شامل ہیں۔ سندھی کے معروف ادیب اور دانشور، پیر علی محمد شاہ راشدی مرحوم نے اپنی خود نوشت میں پوکر داس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
”اگر سندھی زبان آج تک حیات ہے، تو اُس کی ایک وجہ پوکر داس کا چھاپا خانہ بھی ہے“۔

کہا جاتا ہے کہ بحیثیت انسان، پوکر داس انتہائی خوش اخلاق اور وضع دار تھے۔ اُنہوں نے اپنے اشاعتی کاروبار کو کراچی اور حیدر آباد تک بڑھایا اور اپنے پوتوں، مدن لال، لچھمن داس اور بھوج راج کو بھی اس اشاعتی کام میں مصروف کیا۔ اس کے بعد اُن کی پہچان ”پوکر داس، تاجرِ کتب شکار پور“ سے بدلی اور اُن کی کتب پر ”پوکر داس اینڈ سنز، تاجرِ کتب شکار پور/ حیدر آباد و کراچی“ لکھا جانے لگا۔ اُن کی شایع شدہ کتابیں، اُس دور کی اشاعتی جمالیات کے لحاظ سے بھی انتہائی دیدہ زیب تھیں۔

اُن سیکڑوں کتابوں میں ”جہاندار شاہ“، ”آرام دل“، ”حاتم طائی“، ”ممتاز دمساز“، ”قصہء چہار درویش“، ”طوطا نامہ“، ”دُنیا دو رنگی“، ”سوداگر بدر الجمال“، ”شمشیرِ جنگ“ اور ”راحت جان“، ”سکندر نامہ“، ”بوستان سندھی“، ”دُنیا کی سیر“، ”عالمِ آبی“، ”راجا اِندر اور سبز پری“، ”سچائیء جی سوبھ“، ”بھیانک لاش“، ”دلپسند ناول“، ”شہزادہ ارجمند“، ”مایہء ظرافت“، ”شیریں فرہاد“، ”بمبئی ناٹک گانا“، ”ڈاڑھیارے جبل جو سیر“ (مرزا قلیچ بیگ) ، ”نقشِ سلیمانی“، ”کفن دفن“، ”سخاوت نامہ“، ”مصر جا منارا“، ”دیوانِ صنعت“، ”سونو پکھی“، ”جن اور شیطان“، ”آچر مسخرو“، ”جنگ نامہ“، ”مقصود المومنین“، ”مناقبہ ائیں مدحوں“، ”بھیانک بھوتنی“، ”جادؤ جا تماشا “، ”بہرام بہادر جی گالہہ“، ”شریک دھرم“، ”مانسک دھرم“، ”داستانِ امیر خسرو“، ”دیوانِ تاج“، ”ہیر رانجھا“ اور کئی دیگر کتب شامل ہیں۔

سندھی زبان و ادب کے اس اہم خدمت گار نے 14 اپریل 1934ء میں تقسیمِ ہند سے 13 برس قبل اس دارِ فانی سے کوچ کیا اور چند روز قبل ان کی رخصت کو 86 برس مکمّل ہوئے۔ اُن کے اس دُنیا سے جانے کے بعد اُن کے بیٹے اور پوتے اُن کے کاروبار کو احسن انداز میں چلاتے رہے، جو تقسیمِ ہند کے باعث ہجرت کر کے سندھ چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ اس وجہ سے سر زمینِ سندھ ایک انتہائی اہم اور تاریخی اشاعتی ادارے سے محروم ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments