ایک دکھیاری بیٹی کی فریاد


کہتے ہیں کہ کائنات میں سب سے صبارفتار روشنی ہے۔ مگر یہ تو دھرتی واسیوں کا تخمینہ ہے، چھوٹے لوگ، چھوٹے دماغ، چھوٹی سوچ !
آسمان والوں کے نزدیک تو روشنی سب سے سست رفتار اور کاہل الوجود اونٹنی ہے۔

بھلا کہاں فوٹون کے ذروں سے ساختہ روشنی جو اربوں سال کا سفر کر کے بھی اِس چرخ ِزرنگار کے پہلے گنبد کو بھی نہ چھو سکے، اور کہاں دکھی دل سے نکلی ایک آہ جو بصورتِ فریاد ایک پل کے ہزارویں جز میں ساتوں گنبدوں پر کمندیں ڈالتے عرش معلی پہ جا پہنچے !

سو اُس دن بھی ایک فریاد جھولی پھیلائے کائنات کے ایک گوشے سے اٹھی اور ایک ہی زقند میں عرش پہ جا پہنچی۔ اور اب انصاف کے لیے خدا کے سامنے دست بستہ کھڑی تھی۔ اور وہ کوئی معمولی فریادتو نہ تھی !

حد امکان سے پرے، ایک بے سمت و بے کنار ”بحر وجود“ کے بالکل درمیان میں ایک ننھا سا نقطہ برابر ”جزیرہ عدم“ تھا۔ جزیرے میں زندگی و موت کا رقص کرتے بے شمارقبائل میں سے ایک قبیلہ، کہ نسبت جسے دودھ سے ملی تھی، اُس کے سب سے اعلیٰ خاندان، خاندانِ شمس کی وہ سب سے حسین مگر دکھیاری بیٹی کی فریاد تھی۔ وہ بیٹی کہ جس کے بے مثال نیلے ملکوتی حسن، سنہری لبادے اور سبز اوڑھنی کی پورے جزیرے میں دھوم تھی۔

وہ سعادت مند کہ جس کی گود میں اللہ کا خلیفہ دیا گیا اور وہ جو اپنے سینے میں ایسے مقدس خزانے سمیٹے ہوئے تھی جن پر خدا کا عرش بھی رشک کرتا تھا۔ شمس کی وہ بیٹی آج سخت ناراض تھی۔

اس کا دلکش چہرہ روزبروزداغدار ہوتاجاتا تھا اور اس کے وہ مہکتے جانفزا انفاس جو جزیرے کے کسی اور نفس کو عطا نہ ہوئے تھے، لمحہ بہ لمحہ دھواں دھواں ہوتے تھے، یہی نہیں اس کے حیات آگیں شفاف نیلے پانی سیال زہر میں بدلتے جاتے تھے۔

اس کے یکتا و منفرد وجود پر اللہ کا نادان اور جلدباز خلیفہ وہ ستم ڈھا رہا تھا کہ نہ صرف صانع کے بنائے سارے نظام درہم برہم ہورہے تھے، بلکہ اپنے ہاتھوں وہ اپنے قتل کے درپے ہو رہا تھا ! گویاگود کے بچے نے اپنی ہی ماں کی گود اجاڑنا شروع کر دی تھی۔ اس نے ظلم وستم سے اس کا پورا وجود بھر دیا تھا۔ مگر تابکے! بنتِ شمس کے صبر کی بھی اب حد ہوگئی تھی۔

ایسا نہ تھا کہ زمین نے اوّل اِس ضدی کو سمجھانے کی کوئی کوشش نہ کی تھی۔ موسموں کی تبدیلی سے، بارشوں کی کمی سے، فصلوں کی خرابی سے وہ انھیں گاہے اشارے دیتی رہی تھی جو خود کو خدا کی واحد عقل مند مخلوق سمجھتے تھے، مگر جب وہ کسی طرح نہ سمجھے توتنگ آ کر زمین نے بڑے دربار میں شکایت کی عرضی بھیجی۔

اور اس کا شکوہ سنا گیا۔ اسے اجازت دی گئی کہ اپنا خصوصی اختیار استعمال کرے اورا نھیں چھوٹے چھوٹے سبق سکھائے شاید کہ وہ باز آئیں! زمین نے پھر باذن اللہ کئی بار کروٹ لی۔ دھرتی کا سینہ تھراتا تھا تو متکبر خلیفہ کا غرور اس کی بنائی عمارتوں کے ساتھ مٹی میں مل جاتا تھا۔

تب وہ گھبرا کر کانفرنسیں کرتا، لمبے لمبے مقالے لکھتا، ائیر پلوشن کنٹرول ایکٹ اور نجانے کون کون سے ایکٹ نافذکرتا، مگرکچھ دن گزرتے تھے کہ خلیفہ سب وعدے بھول بھال جاتا کہ اُس کم نصیب کی ایک صفت ذھول بھی تو تھی، بھولنے والا!

زمیں نے مگر جلدی ہار نہ مانی۔ وہ بار بار تنبیہ کرتی رہی۔ کبھی اپنے پانیوں کو حکم دیتی کہ و ہ سونامی بن کر خشکی پر چڑھ دوڑیں تو کبھی اپنے آتش فشاں سینے سے آگ اگلتی کہ شاید آدم کے بیٹے ڈر کر باز آجائیں، مگر وہ غضب کے اکڑ باز تھے، سو با ز نہ آئے۔

اور تب آخرایک دن بنت شمس کی صبر کی ساری حدیں پار ہو گئیں۔ اس کے دکھی دل سے آخر وہ آہ نکل ہی گئی جو آسمانوں کا سینہ چیرتی شرفِ قبولیت پانے عرش پر جا پہنچتی ہے۔ سو اب وہ فریاد دست بستہ انصاف کے لیے بارگاہ اقدس میں کھڑی تھی !
٭
فریاد قبول ہوئی۔ انصاف دیا گیا اور اس طور کہ دیکھنے والے ہمیشہ کی طرح حیران رہ گئے۔ بڑی جسیم مخلوقات سے کام لیا گیا نہ ہی آندھیاں طوفان بھیجے گئے بلکہ احکم الحاکمین نے اپنے خلیفہ کواُس کی اوقات یاد دلانے کے لیے اپنی سنت عادیہ جاری کی اور اپنی مخلوقات میں سے سب سے حقیر کا انتخاب کیا۔

اورکیسا حقیر ؟ مچھر سے بھی لاکھوں گنا حقیر تر۔ وہ جو حرکت کرنے کے لیے بھی کسی جاندار کا محتاج تھا، اُسے حکم ہوا کہ ذریتِ آدم کو ہلا دے۔
اوروہ ننھا سا وجود، چند ہی دن گزرے تھے کہ پوری دنیا میں وبا کی طرح پھیل گیا۔ ساری انسانیت ہل کر رہ گئی۔

خدا کی رحمت کا نزول بصورت زحمت کچھ یوں ہوا کہ بڑی بڑی سریا پڑی گردنیں جھک گئیں، اور خدائی کے دعویدار وں نے خدا کا نام جپنا شروع کیا!چوبیس گھنٹے کاربن اگلتی چمنیاں کیا بند ہوئیں، خدا کے کروڑوں کمزور بندے جو چند زمینی خداؤں کی پھیلائی آلودگی کے سبب سرطان سے اور دوسری بری بیماریوں سے سسک سسک کر مرتے تھے، بچنے لگے۔

سو دو سو نہیں، چند دنوں میں ہزاروں کے عوض لاکھوں جانیں بچیں۔ ہزاروں نومولود معصوم جینیاتی امراض کے بغیر تندرست پیدا ہوئے۔ اور اتنا ہی نہیں۔ فریاد کناں کو بھی خوش کر دیا گیا۔ چند ہی دنوں میں برسوں کا نقصان پورا ہوا۔ خاندان شمس کی سب سے خوش رَو وَخوش رنگ، دلنشیں و دلکش بیٹی ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنس اٹھی۔

پس تحریر:

٭کورونا وبا کی وجہ سے کراچی، لاہور سمیت پوری دنیا کی فضائی و آبی آلودگی میں زبردست کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
٭ایک تحقیق کے مطابق صرف فضائی آلودگی سے ہر سال 80 لاکھ افراد کی قبل از وقت موت واقع ہوجاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments