کھاریاں والے بنگلے میں کون رہتا ہے؟


ہوا یوں کہ ایک مقامی اخبار میں میرا ایک مضمون چھپا جو تارکین وطن کے بچوں کے بارے میں تھا۔ یہ بچے دو مختلف ثقافتوں میں پل رہے ہیں اور کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھر اور باہر کی مختلف دنیایں، والدین کی مصروفیات اور اپنی روایات، ارینجیڈ یا جبری شادیاں میرے مضمون کے نکات تھے۔ اس مضمون کے چھپنے کے بعد ایک کالج کی طرف سے بلاوا آیا کہ ہمارے ہاں بھی دو ثقافتی بچوں کی خاصی بڑی تعداد ہے ذرا آ کر ان سے بات چیت کیجیئے۔ میری بات کے اختتام پر سوالات کا سلسلہ ہوا۔ سیشن تمام ہوا اور میں باہر نکلے ہی والی تھی کہ ایک لڑکے نے مجھے روکا۔

” میں نے آپ کی تقریر غور سے سنی۔ اور وہ آرٹیکل بھی پڑھا جو اخبار میں چھپا تھا۔ سب نری بکواس ہے۔ آپ کے ان آرٹیکلز اور بھاشن سے کچھ نہیں بدلنے والا“ اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت اور اداسی تھی۔

لمحہ بھر کو تو میں گڑبڑا گئی۔ پھر سنبھل کر بولی ”ایسا کیوں سمجھتے ہو“؟

” اس لیے کہ میں جانتا ہوں۔ مجھ پر گزر چکی ہے۔ اور گزر رہی ہے۔ ہو سکے تو میری کہانی بھی سنیئے اور ہمت ہو تو اسے پبلش بھی کروایئے“

 ” اگر تم میں ہمت ہے سنانے کی تو مجھ میں ہمت ہے اسے لکھنے کی“ وہ کچھ دیر چپ رہا پھر بولا

 ” اپنا فون نمبر دیں۔ “

میں جلدی سے ایک کاغذ پر اسے فون نمبر اور اپنا ای میل لکھ کر اسے تھما دیا۔ وہ چلا گیا اور میں گھر آنے تک اس کے بارے میں سوچتی رہی۔ کچھ دن مجھے اس کا خیال آتا رہا لیکن اس نے رابطہ نہیں کیا۔ میں نے سوچا کہ شاید اس کا ارادہ بدل گیا۔ جب میں اسے تقریبا بھول چکی تھی اس کی ای میل موصول ہوئی۔ اس نے اپنی کہانی لکھ بھیجی۔

بچپن میں اسکول اور کھیل کے علاوہ اور کچھ زندگی میں نہیں۔ دو بہنیں تھیں ایک بڑی ایک مجھ سے چھوٹی۔ تعلق ہمارا کھاریاں سے ہے اور ناروے میں اس علاقے سے آنے والوں کی تعداد خاصی ہے۔ اوسلو میں شہر کے بیچ ہما را ایک تنگ سا فلیٹ تھا۔ گھر کا سامان بس گذارے لائق تھا۔ بچپن سے سنتے آئے تھے کہ کھاریاں میں ہمارا بڑا سا بنگلہ بنے گا۔ ابو دن رات کام کرتے تھے۔ جو بھی کام ملا انہوں نے کیا۔ دن کو ایک فیکٹری میں کام کیا رات کو ٹیکسی چلائی۔ آدھی رات کے بعد گھر آتے۔ چھٹی بھی کم ہی لیتے تھے۔ ہماری ان سے ملاقات کسی خاص دن ہوتی تھی جب وہ گھر پر ہوتے۔ امی گھر کے کاموں میں مصروف رہتیں۔

ذرا بڑے ہوئے تو احساس ہوا کہ ہم بہت تنگی میں دن گذار رہے ہیں۔ کبھی نئی سایئکل نہ ملی۔ کبھی اچھے برانڈ کے کپڑے نہ ملے۔ گھر کا سارا فرنیچر بھی پرانا سامان بیچنے والی دوکانوں سے لیا جاتا۔ لیکن کھاریاں میں بننے والے بنگلے کی باتیں زور شور سے سنتے رہے۔ اب زمین خرید لی۔ اب نقشہ پاس ہو گیا۔ اب بنیادیں رکھ دیں۔ ابو سال میں دو بار پاکستان جاتے۔ ایک بار وہ ہم سب کو بھی پاکستان لے گئے۔ بڑے شوق سے ہمیں بنگلہ دکھایا جو ابھی بن رہا تھا۔ ۔ امی خوش ہوتیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر یہ بنگلہ کیوں بن رہا ہے؟ اس میں کون رہے گا؟ میں نے ابو سے پوچھ ہی لیا۔ وہ ہنس کر بولے ”ہم سب رہیں گے پتر۔ جب تو ڈاکٹر بن جائے گا پھر ہم سب یہاں آ جایں گے۔ اور بنگلے کے باہر نام کی تختی لگی ہو گی۔ ڈاکٹر عامر حسن چودہری“ قہقہ لگا کر امی کی طرف تعریفی نظروں سے دیکھا۔ میرا گلا خشک ہو گیا۔ میں نے ڈاکٹر بننے کا سوچا بھی نہیں۔ لیکن ہر تارک وطن والدین کی طرح میرے والدین کا بھی یہی خواب تھا۔

ہم اسی طرح سختی میں زندگی گذارتے رہے۔ ابو ٹیکسی چلاتے تھے اور پھر اپنی خرید لی۔ لیکن ہماری حالت نہ بدلی۔ آمدنی کا بڑا حصہ کھاریاں کے بنگلے کی نذر ہو جاتا تھا۔ ہم سب بنگلے کے خواب دیکھتے رہے۔

نویں جماعت میں اسکول میں ٹیچرز والدین سے میٹینگ کرتے ہیں تا کہ ان کی رہنمائی کر سکیں کہ بچے کو آگے کیا پڑھنا چاہیے اور اس کے لئے کیا مناسب ہے اسے کس مضمون میں دلچسپی ہے۔ اس دن شاید پہلی یا دوسری بار ابو اسکول آئے اور ان پر یہ سن کر بجلی سی گر گئی کہ مجھے میڈیسن تو کیا سایئنس ہی میں دلچسپی نہ تھی۔ اور میں ان مضامین میں اچھے نمبر بھی نہیں لاتا۔ مجھے شوق تھا صحافی بننے کا اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر رپورٹنگ کا۔ ابو گم سم سے بیٹھے رہے۔ راستے میں تو کچھ نہ بولے لیکن گھر آ کر امی اور بہنوں کے سامنے مجھے خوب بے عزت کیا۔ شرمندہ کیا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ”اب اس بنگلے کے آگے ڈاکٹر کے نام کی تختی نہیں لگے گی۔ اللہ نے بیٹا بھی ایک ہی دیا“ وہ درد سے کراہ کر بولے۔ ”آپ کی بیٹیاں بھی تو ہیں ابو۔ انہیں ڈاکٹر بنا دیں“ میں نے ہمت کر کے کہا۔

 ” اس سے تو مجھے امید ہی کوئی نہیں“ بڑی بہن کو ڈھیروں شرمندہ کر کے وہ خود ترسی میں مبتلا ہو گئے۔ بڑی بہن ثمر پڑھائی میں واقعی کمزور تھی۔ ”ابو میں بنوں گی ڈاکٹر“ چھوٹی ارم چمک کر بولی۔ ابو کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ ”اوئے شاباش پتر۔ ۔ میں تجھے اسی بنگلے میں کلینک بنا کر دوں گا۔ وہاں تیرے نام کی تختی لگے گی ڈاکٹر ارم حسن چودہری۔ واہ۔ ۔ پھر دنیا دیکھے گی میری شان“ وہ اب ایک نیا خواب دیکھنے لگے۔

پندرہ، سولہ سال کی عمر سے ہی میں نے چھوٹے موٹے کام کرنے شروع کر دیے۔ میکڈالنڈ میں ویک اینڈز اور کبھی کسی کسی شام کو کام کرتا رہا۔ جیب میں پیسے آنے لگے۔ میں نے جوڑ کر ایک موبایئل خریدا۔

میں اٹھارہ سال کا ہو گیا۔ اور ڈرایؤنگ لائسنس بھی لے لیا۔ ناروے میں لائسنس حاصل کرنا مشکل بھی ہے اور مہنگا بھی۔ اس میں ابو نے میری مدد کی یہ کہہ کر۔ ”اس کے بعد ٹیکسی کا ٹسٹ بھی لے لینا۔ ڈاکٹر تو تو بن نہیں سکتا اب ٹیکسی چلا کر ہی کما سکے گا۔ “

گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم سب پاکستان گئے۔ ہمارا بنگلہ تیار ہو چکا تھا۔ میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ وہ کتنا بڑا اور کھلا کھلا تھا۔ اوسلو کے تنگ فلیٹ کے سامنے یہ محل سے کم نہ تھا۔ سب کے الگ الگ کمرے تھے اور ہر کمرے میں پورا فرنیچر اور ایر کنڈیشنر۔ مجھے پہلی بار یہ شک ہوا کہ شاید ہم امیر لوگ ہیں۔ کم سے کم پاکستان میں تو ہم ضرور امیر ہیں۔ ابو خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ امی بھی خوش تھیں بہنیں بھی اور میں پھر یہی سوچ رہا تھا کہ یہاں رہے گا کون؟

کھاریاں کے پاس کے ایک گاؤں میں میری پھوپھو رہتی تھیں۔ ایک دن وہ سارے کنبے کے ساتھ مٹھائی کے ٹوکرے لیے آیں۔ وہ اپنے بیٹے طلال کا رشتہ میری بہن ثمر کے لئے مانگ رہی ہیں۔ امی ابو خوش تھے۔ میں پھر حیران کہ ثمر کیسے طلال کے ساتھ زندگی گذارے گی؟ طلال معمولی پڑھا لکھا تھا۔ گاؤں کے بازار میں موبایئل فونز کی دوکان تھی۔ کچھ زمینیں تھیں۔ ان کے گھر کا ماحول کافی دیہاتی سا تھا۔ لیکن ثمر کی آنکھوں کی چمک اور ہنسی بتا رہی تھی کہ وہ خوش ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اوسلو کے تنگ گھر سے بیزار ہے گاؤں کا کھلا کھلا ماحول اسے اچھا لگتا ہے۔ منگنی ہو گئِی۔ شادی اگلے سال ایسٹر کی چھٹیوں میں رکھی گئی۔

ابو کا رویہ میرے ساتھ ویسا ہی روکھا سا تھا۔ لیکن ایک شام ٹی وی پر پاکستانی چینل دیکھتے ہوئے اچانک بڑے پیار سے بولے ”عامر میں تجھے پاکستان کے ٹی وی چینل میں اینکر لگوا دوں گا۔ سنا ہے پیسے اور سفارش سے یہ کام مل جاتا ہے۔ کیسا اچھا لگے گا جب تو ٹی وی پر آئے گا۔ ساری دنیا دیکھے گی“ ان کی آنکھیں اب ایک بالکل نیا خواب دیکھنے لگیں۔ ارم نے ڈاکٹر بننے کا ارادہ کر لیا تھا اور بہت محنت سے پڑھ رہی تھی۔ ثمر نے پڑھائی چھوڑ دی اور ککنگ بیکینگ کے کورس کر نے لگی۔

امی شادی کی تیاری کے لئے کرسمس کی چھٹیوں میں ہی ثمر کو ساتھ لے کر پاکستان چلی گیں۔ ارم، ابو اور میں ایسٹر شروع ہوتے ہی روانہ ہو گئے۔ ہمارا پورا بنگلہ روشنیوں سے سجا ہوا تھا۔ ہر طرف رونق تھی۔ جہیز کا سامان خریدا جا رہا تھا، کپڑے، زیور فرنیچر ہر شے قیمتی تھی۔ ہر تقریب کے لئے الگ لباس تھا۔ ۔ گھر میں ڈھولک بج رہی تھی۔ لڑکیاں مہندی کے رقص کی ریہرسل میں لگی ہوئی تھیں۔ میں بھی بہت خوش تھا۔ اور ثمر کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ مہندی کی شام آئی۔ سب گھر والوں نے ہرے اور پیلے جوڑے پہنے۔ مردوں نے بھی پیلے کرتے پہنے۔ ثمر کو مہندی لگائی جا رہی تھی۔ نکاح بھی آج ہی ہونا تھا۔ ابو نے مجھے کمرے میں بلایا۔

 ” ہاں پتر دیکھ سب انتظام ٹھیک ہیں نا؟ “ وہ خوشی سے بولے۔ ”جی ابو جی سب بہت شاندار ہے“

 ” سب خوش ہیں۔ ہیں نا؟ “ میں نے سر ہلایا۔ ”تو بھی خوش ہے نا پتر؟ “ ”جی ابو میں بھی خوش ہوں“

 ” اب دیکھ نا ماں باپ اپنے بچوں کے لئے صحیح فیصلے کرتے ہیں۔ ہیں نا؟ دیکھ سب کتنے خوش ہیں“ میں نے ہاں میں ہاں ملائی ”اسی لئے پتر میں نے اور تیری ماں نے سوچا کہ تیرا بھی کچھ انتظام کر دیں“ وہ بات کو ہنسی میں لے رہے تھے۔ میرا سانس رک سا گیا۔ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔

 ” طلال کی بہن کی بات کی ہے تیری پھوپھو نے تیرے لیے۔ بڑی نیک لڑکی ہے۔ لو جی ہمارا تو مسئلہ ہی حل ہو گیا“۔ وہ خوشی سے ہنستے جا رہے تھے اور میرا دل ڈوبا جا رہا تھا۔ میں نے احتجاج کیا۔

انہوں نے امی کو بلا لیا اور دونوں نے مل کر مجھے قائل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ میں انکار کرتا ریا۔ دونوں اصرار کرتے رہے۔ پہلے پیار سے، پھر سنجیدگی سے۔ پھر منتوں سے اور آخر میں دھمکی سے۔ امی نے ہاتھ باندھ کر التجا کی

 ” تیری بہن کی خوشیوں کا سوال ہے بیٹا۔ تیری پھوپھو نے شرط لگا دی ہے۔ “

 ” اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ میں ابھی پڑھ رہا ہوں۔ مجھے کچھ بننے میں بہت سال لگیں گے“ میں نے آخری کوشش کی۔

 ” ہاں تو ہم کونسا ابھی اسے رخصت کرا رہے ہیں۔ پڑھائی کے بعد ادھر ہی آجانا اور شان سے اس بنگلے میں رہنا۔ جب تک ارم بھی ڈاکٹر بن جائے گی“

میں چیخنا چاہ رہا تھا لیکن میری آواز تک نہ نکلی۔ بس میرے آنسو بہتے رہے۔

جذباتی دباؤ شدید تھا اور مجھے اپنا دفاع کرنا نہیں آ رہا تھا۔ پھر وہی ہوا جو ابو نے چاہا۔ ثمر اور طلال کے نکاح کے ساتھ میرا اور فضا کا نکاح بھی پڑھوا دیا گیا۔ میری دنیا میری زندگی چند لمحوں میں تاریک کر دی گئی۔ ثمر کی رخصتی ہو گئی۔ شکر کہ فضا اپنے ہی گھر رہی۔ میں اس کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔

ہم سب واپس آ گئے۔ ثمر سسرال میں رہ گئی۔ میرے دل میں شدید غم و غصہ تھا۔ جی چاہتا تھا کہیں جا کر گم ہو جاوں اور کسی کو میرا پتہ نہ ملے۔ ابو اب مجھ سے بہت پیار سے بات کرنے لگے تھے۔ وہ اسی خوش فہمی میں تھے کہ میں پڑھائی مکمل کر کے پاکستان چلا جاوں گا۔ ارم بھی ڈاکٹر بن کر کھاریاں کے بنگلے میں اپنی کلینیک کھولے گی۔ ثمر تو ہے ہی وہاں۔ یوں سارا کنبہ عیش و آرام سے رہے گا۔

ابو کو بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب ایک دن وہ ارم کو کھاریاں والے گھر میں کلینیک کا سپنا دکھا رہے تھے۔

 ” ابو میں کبھی بھی پاکستان جا کر کلینیک نہیں کھولوں گی۔ میں وہاں کام نہیں کر سکتی۔ مجھے تو بیماریاں کے نام بھی اردو پنجابی میں نہیں آتے۔ ایسا سوچیں بھی مت“ ابو کے چہرے پر تھکن اور اداسی کی لکیریں پڑ گیں اور مجھے ایک کمینی سی خوشی ہوئی۔

میں اپنے مسئلے میں بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا اور اس کا حل بھی سوچ رہا تھا۔ دوستوں سے بات کی تو حیران رہ گئے۔

 ”ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی کسی کی زبردستی شادی کیسے کر سکتا ہے؟ تم تو اس لڑکی سے محبت بھی نہیں کرتے“

 ” ہمارے ہاں کی شادیوں میں محبت نہیں دیکھی جاتی۔ وہاں اور ہی کچھ دیکھا جاتا ہے“

میں جانتا تھا کہ ناروے کا قانون میرے ساتھ ہے۔ یہ جبری شادی ہے۔ مجھ پر شدید جذباتی بلیک میل کیا گیا اور دھمکی بھی دی گئی۔ اس کے خلاف قانون موجود ہے۔ مجھے بس پولیس میں رپورٹ درج کرانی ہو گی اور قانون حرکت میں آ جائے گا۔ جبری شادی کروانے پر چھے سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ میں نے ہر طرح سے اس امکان پر سوچا۔ اس کے نتائج پر غور کیا۔ پولیس رپورٹ، پھر میرا بیان، والدین پر الزامات، ان سے پوچھ گچھ، وکیل کی مدد، کیس عدالت میں۔ والدین کی گرفتاری۔ سزا۔ پھر اس کے بعد؟ یہ سب میں کیسے کر سکتا ہوں؟

میں نے خود کو حالات کے سپرد کر دیا۔

آگے سنیئے۔ میں ہائی اسکول سے کالج آ گیا۔ ابو شوگر کے مریض ہیں۔ ٹانگ میں ایک زخم ہوا جو ٹھیک ہی نہ ہو سکا۔ کام سے ریٹائر ہو کر کچھ عرصے کے لئے امی کو لے کر کھاریاں جا کر رہے لیکن اچھا علاج وہاں ممکن نہ تھا۔ دونوں واپس آ گئے۔ امی کو چھاتی کا کینسر ہوا وہ آپریشن اور کیمو تھراپی سے گزریں مجھ پر پھر زور ڈالا گیا کہ میں فضا کو بلوا لوں تاکہ وہ امی ابو کی دیکھ بھال کر سکے۔ ان کے خیال میں بہویں اسی لیے ہوتی ہیں کہ بوڑھے ساس سسر کی خدمت کریں۔ فضا آ گئی اور خدمت بھی کر رہی ہے۔ اور اب میں تین ماہ کی جڑواں بچیوں کا باپ ہوں۔

فضا کے یہاں آتے ہی ثمر اپنے بیٹے کو لے آ کر واپس آ گئی اس کا وہاں گذارا نہ ہو سکا۔ ابو نے گرج کر کہا کہ میں بھی جواب میں فضا کو واپس بھیج دوں لیکن اپنی بیماری اور بے چارگی دیکھ کر چپ ہوگئے۔ ارم سویئڈن میں میڈیکل کر رہی ہے۔ وہیں ایک فلسظینی ڈاکٹر سے شادی کر لی اور خاندان سے کٹ گئی۔

میں دن میں کالج جاتا ہوں۔ شام میں رات گئے تک ابو کی ٹیکسی چلاتا ہوں۔ ہم اسی چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ پیسے جمع کر رہے ہیں بڑا گھر لینے کے لیے۔ میری آنکھیں اب بھی صحافی بننے کا خواب دیکھتی ہیں۔ لیکن ابو کے سارے خوابوں کا ٹوٹ کر بکھرنا مجھے ڈراتا رہتا ہے۔

کھاریاں والے بنگلے میں کوئی نہیں رہتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments