پاکستانی ڈراما انڈسٹری


کرونا وائرس کی وجہ سے سیلف آئسولیشن میں ہونے کے باعث، پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینلوں پر کچھ ڈرامے دیکھ کر یہ احساس ہوا، کہ ما شا اللہ سے ہماری ڈراما انڈسٹری بھی ترقی کا زینہ پھلانگتی ہوئی اسٹارپلس اور دیگر بھارتی ٹی وی چینلوں پر دکھائے جانے والے بے مقصد ڈراموں کے قریب قریب ہے۔ اکا دکا اچھے اور معیاری ڈرامے بھی دکھائے جارہے ہیں، مگر زیادہ تر کہانیاں انہی گھسے پٹے کرداروں کے گرد ہی گھومتی ہیں۔

نوے فی صد کہانیوں میں ایک لڑکی کے حصول کے لئے دو لڑکوں کی جنگ، یا دو لڑکیاں ایک ہی مرد کے پیچھے پاگل ہیں اور دونوں ہی اسے حاصل کرنے کے لئے سازشوں کے جال بن رہی ہیں۔ یا پھر وہی گھریلو سیاست اور سازشوں کا جال۔ آخر ہمیں ہو کیا گیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں یہی تین کردار باقی رہ گئے ہیں؟ یا پھر ریٹنگ کے حصول اور بھارتی ڈراموں سے متاثر ہمارے ٹی وی چینل اس کے علاوہ کچھ دکھانا نہیں چاہ رہے۔

میں کوئی پچاس ساٹھ کا بوڑھا بابا تو نہیں ہوں، جس نے زندگی میں صرف پی ٹی وی کے بامقصد کہانیوں پر مشتمل ڈرامے ہی دیکھے ہوں۔ (اگرچہ ہم سب کے مدیر کو 50 برس کی سیڑھی پھلانگے ہوئے کئی برس ہو گئے تاہم محترم یاسر مجید کے قلم سے بوڑھے بابے کا خطاب پسند نہیں آیا۔ بھائی ادھیڑ عمر ہی کہ لیتے، بیک جنبش قلم جہنم واصل کر دیا۔) میں موجودہ دور کے پرائیویٹ چینل دیکھ کر بڑا ہوا ہوں۔ اور بڑے افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ڈراما انڈسٹری سے مقصد ختم اور صرف پیسا، ریٹنگ اور مقابلہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ میں سے جو دوست ٹی وی دیکھنے کا شوقین ہے، وہ صرف ایک ہفتہ مختلف پاکستانی چینلوں پر لگنے والے سیریل کی ایک ایک قسط دیکھ لیں۔ ان میں سے بیش تر ڈرامے ایک جیسی کہانی ہی لگیں گے۔ اور ہر کہانی سے ناظرین کو صرف سازشیں، جرائم کے طریقے اور بے راہ روی ہی ملے گی۔ ان کا خاص نشانہ عورتیں ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ان ٹی وی ڈراموں سے ہماری ذاتی زندگی خاصی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ اس کے اثرات اکثر گھروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ترکی نے حال ہی میں ڈراما ”ارتغل“ دکھایا، جس نے ترکی میں عثمانیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کو معیاری عکس بندی کہوں گا۔ اس نے ہماری تاریخ کو دہرایا اور موجودہ نسل تک یہ بات پہنچائی کہ ماضی کے عظیم جنگ جوؤں نے کیسے سازشوں میں گھر کر، منافقوں کے ساتھ رہ کر اور چاروں طرف سے یلغار کرتے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ ڈراما دکھانے کا مقصد واضح ہے۔

ماضی میں پی ٹی وی پر ٹیپو سلطان کی داستاں دکھائی گئی۔ یا پھر وادی کشمیر پر بننے والے ”انگار وادی” کی کہانی لے لیں۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ بلاشبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی ایسی کہانیاں لکھنا اور ان کی عکس بندی کرنا ہماری موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے بے حد ضروری ہے۔

ہمارے یہاں اب ایسی کہانیاں کیوں نہیں لکھی جا رہیں؟ یا پھر ”لکھنے نہیں دی جا رہیں؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بھارتی ٹی وی چینلوں کی تقلید کرتے اور ناظرین کی پسند کے باعث یہ سب کچھ اب پاکستانی ٹی وی چینل کی مجبوری بن گیا ہو۔ یا پھر وسائل کی کمی ہو۔ کم اخراجات میں شاید ایسے ڈرامے ہی بن سکتے ہوں۔

مگر پھر بھی گزارش ہے کہ اگر صرف یہی کچھ ہی دکھانا ہے تو اس انداز سے دکھائیں، کہ معاشرے پر مثبت اثر پڑے۔ منفی نہیں۔ بصورت دیگر ہم شکوے ہی کریں گے، کہ ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ لگانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments