لال میری پت رکھیو: دھمالوں کے عاشق اسد بخاری


ہم نے پوچھا بطور فلمساز کس ہیرو کو متعارف کرایا۔ بولے :میں ایک فلم بنا رہا تھا۔ وحید مراد کا عروج تھا۔ معاہدہ سائن ہو چکا تھا۔ باقی کاسٹ اور ٹیکنیشنز تیار بیٹھے تھے۔ وحید مراد تاریخ دیتے اور پھر اچانک مصروفیت کا کہہ کر منسوخ کر دیتے۔ میں تنگ آ گیا۔ سوچا یہ پروجیکٹ بند کر دوں۔ ایک دن سٹوڈیو والے دفتر کی بالائی منزل پر بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان نیچے گزرتے دیکھا۔ بنا بنایا ہیرو۔ میں نے چپراسی کو دوڑایا: اسے لے کر آؤ۔

تھوڑی دیر بعد وہ نوجوان میرے سامنے کھڑا تھا۔ پوچھا فلم میں کام کرو گے؟ اس نے جواب دیا: سٹوڈیو میں کب سے اسی مقصد کے لئے دھکے کھا رہا ہوں۔ میں نے اسے ”آنسو ’‘ میں ہیرو کاسٹ کر لیا۔ نوجوان کی جانب سے معاوضے کی کوئی شرط نہ تھی مگر میں نے اسے اتنا معاوضہ دیا جتنا وحید مراد کے ساتھ طے ہوا تھا۔ ہم نے بخاری صاحب سے پوچھا وہ ہیرو کون تھا۔ بولے شاہد۔

اسد بخاری کی نظر ایسی ہی تھی۔ فوراً پہچان جاتے کہ کس میں کس درجے کی صلاحیت ہے۔ اسد بخاری فلمساز ہی نہیں تھے بہت سی اردو اور پنجابی فلموں میں بطور اداکارکام بھی کیا۔ عنایت حسین بھٹی اور ان کے بھائی کیفی کی اپنی فلم کمپنی تھی۔ اسد بخاری کی بھٹی برادران کے ساتھ گہری دوستی تھی لیکن فلم میں ایک بار سفارش اور دوستی کام آتی ہے۔ یہ کاروبار صلاحیت سے خالی لوگوں کو بہت جلد فراموش کر دیتا ہے۔ عنایت حسین بھٹی کی طرح اسد بخاری عام زندگی میں اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت اور مجالس کا خاص خیال رکھتے۔

گلبرگ میں نورجہاں اور اسد بخاری کی رہائش گاہوں پر محرم الحرام کے دوران بہت بڑی مجالس برپا ہوتیں۔ ہم نے پوچھا:آپ نے اپنی فلموں میں دھمال کو اس انداز سے فلمایا کہ یہ منقبت اور درویشی رقص کا امتزاج ہو گئی۔ دھمال کے لئے نورجہاں کی آواز ’عالیہ کا رقص‘ خاص سازوں کا انتخاب ’دھمال کا ماحول اور پھر اسے عام رقص سے الگ کرنے پر خاصی محنت کرنا پڑی‘ یہ سب کیسے کیا۔

اسد بخاری پورے دھیان سے سوال سن رہے تھے۔ اسی دھیان کی کیفیت میں بولے : یہ مولا کا کرم ہے۔ پھر بتانے لگے کہ میں نے ایک دھمال لکھوائی لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن ’اس کا ایک مصرع کچھ متنازع محسوس ہوا۔ ڈر تھا کہ سنسر بورڈ اس کی بنیاد پر فلم کو ہی نمائش سے نہ روک دے۔ رعایت بھی ہوئی تو اس قدر محنت سے تیار کی گئی دھمال فلم سے نکالنا پڑے گی۔ رات کو پریشان لیٹا ہوا تھا کہ ایک متبادل مصرع دماغ میں جگمگایا۔ ”علی دم دم دے اندر“ میں نے فوراً یہ مصرع لکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگلے دن ملکہ ترنم نورجہاں کو بلایا۔ دھمال کے متنازع مصرعے کی جگہ یہ والا مصرع اسی لے اور انداز میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ فلم ریلیز ہوئی اور دھمال کی وجہ سے آج تک لوگ اسے دیکھتے ہیں۔

عنایت حسین بھٹی ’اسد بخاری اور دلجیت مرزا جیسے لوگ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے پڑھے تھے نہ انہیں آسکر جیتنے کی بھوک تھی۔ یہ زمین سے جڑے لوگ تھے جو فلم کو اپنی دیسی ثقافت کے فروغ کا سب سے طاقتور میڈیم سمجھ کر ساری زندگی اس کے لئے کام کرتے رہے۔ دس بارہ برس پہلے بھارت میں پنجابی فلم وارث شاہ بنی۔ گرداس مان نے پنجابی کے عظیم صوفی شاعر کا کردار ادا کیا جبکہ جوہی چاولہ بھاگ بھری کے طور پر جلوہ گر ہوئیں۔ بلا شبہ فلم بہت اچھی تھی۔

پاکیزہ محبت کے اس تصور کو کامیابی سے اجاگر کیا گیا جو وارث شاہ کے زمانے میں پسندیدہ تھا۔ عشق حقیقی اور مجازی کی حدود کب ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں اس کو خوبصورتی سے فلمایا گیا لیکن اگر کسی نے ساٹھ کی دہائی میں بنی پاکستانی فلم وارث شاہ دیکھی ہو اور عنایت حسین بھٹی کی اداکاری اور فلم کے معیار کا بھارتی فلم سے موازنہ کیا ہو تو پاکستان کی فلم بہتر قرار پاتی ہے۔

عنایت حسین بھٹی نے ہمارے مرحوم بزرگ دوست محمد حفیظ کی لکھی کہانی کو فلم ”ظلم دا بدلہ“ کے نام سے مکمل کیا۔ اس فلم میں اسد بخاری نے ایک ظالم اور عزتوں کے دشمن کا کردار نبھایا۔ پنجاب میں ولن ہوائی چیز نہیں بلکہ ثقافت اور سماجی اقدار کا ہر دشمن معاشرے میں ولن سمجھا جاتا ہے۔ اسد بخاری نے 400 فلموں میں کام کیا ’چند فلموں میں وہ ہیرو کے طور پر آئے لیکن انہیں کردار نگاری میں پہچان ایسے ولن کے طور پر حاصل ہو ئی جو پنجاب کے طاقتور زمینداروں کے بگڑے مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ اس زمانے کے ولن جگی ملک‘ مصطفی ٹنڈ اور مظہر شاہ کئی فلموں میں ان کے ساتھ سماج دشمن عناصر کی ٹیم خیر اور شر کو ایک دوسرے سے جدا کرتی تھی۔

ہماری نسل بدنصیب ہے کہ ہمیں ایسی کہانی ’فلم اور اداکار ملے جو زبان پنجابی بولتے ہیں مگر ماحول‘ لباس اور کردار کسی اور ملک بلکہ کرہ غیر سے تعلق رکھنے والے دکھائی دیتے ہیں۔ سید اعجاز الحسن بخاری المعروف اسد بخاری کئی سال سے فلم نہیں بنا رہے تھے۔ ان کا زیادہ وقت یاداللہ میں گزرتا یا اپنے وسیع کنبے کے معاملات انہیں مصروف رکھتے۔ وہ ان معدودے چند افراد میں سے تھے جنہوں نے فلمی صنعت میں رہتے ہوئے اپنے مالی وسائل کو لٹایا نہیں بلکہ ان کو کاروبار میں لگایا۔

اسد بخاری کئی غریب فنکاروں اور ہنرمندوں کی مدد کر دیا کرتے۔ گکھڑ منڈی میں پیدا ہونے والے اسد بخاری نے آسو بلا ’جند جان‘ لنڈا بازار ’اج دی گل‘ دلاں دے سودے اور سوہنی مہینوال میں لازوال کردار ادا کیے۔ انہوں نے اپنی کئی فلموں میں دھمال شامل کی۔ اسد بخاری کی آواز ’آنکھیں اور بدن اداکاری کے دوران ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے۔ مجھے معلوم ہے کورونا اور سیاسی بوجھ تلے دبے دانشوروں کے لئے ادب اور فنون لطیفہ سے دلچسپی کا کوئی جواز نہیں رہ گیا لیکن سماج کے مسائل کا ہمہ پہلو مطالعہ ہی اصل تجزیہ کار کا منصب ہے۔ دکھ یہ ہے کہ اسد بخاری اپنے رب کی طرف لوٹ گئے لیکن ان کا خلا پر کرنے والا کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ قحط الرجال اسی کو کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments