زندگی کے کھیل میں پہلا ایکٹ


اگر ہم یہ کہیں کہ ہم زندگی کے کھیل میں شامل وہ فنکار ہیں جن کے سامنے پہلا اور آخری ایکٹ کھیلا جاتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ہم برسہا برس سے اس کھیل میں ایک ہی کردار نبھائے چلے جا رہے ہیں ہر دن، ہر لحظہ، ہر وقت!

دنیا کے سٹیج سے پردہ اٹھتا ہے، نیا فنکار قدم رکھتا ہے۔ پہلی چیخ بیتھوون کی سمفنی کی مانند سماعت میں رس گھولتی ہے اور ہمارے دل کی کلی کھل جاتی ہے۔ اس کی پہلی سانس اس غوطہ خور کی سی محسوس ہوتی ہے جو لمبی ڈائیو کے بعد پانی کی سطح پہ ابھرا ہو۔ اعضا کی پہلی حرکت تو کسی ماہر رقاص کے بھاؤ سے قطعی طور پہ کم نہیں ہوتی۔

آپریشن تھیٹر میں دو باتیں ہمارے دل کو چھو جاتی ہیں۔ ماں کے درجے پہ فائز ہونے والی کی آنکھیں اور ماں کا درجہ دینے والے کی معصوم ادائیں۔

آپریشن تھیٹر میں آنے والی خاتون جو ماں بننے جا رہی ہے پہ رات کی بے خوابی کے آثار نمایاں ہیں۔ پریشانی اور گھبراہٹ کی تحریر چہرے پہ پڑھی جا رہی ہے، امید بھری آنکھیں نم سی دکھائی دیتی ہیں۔

خاموش ماحول میں اجنبی چہرے ماسک پہنے ہر طرف گھومتے ہیں۔ اوزار لائے جا رہے ہیں۔ ایک کمرے کے وسط میں ایک لمبی سی میز پڑی ہے، سرہانے آکسیجن اور بے ہوشی والی دواؤں کے سلنڈر لگے ہیں، سر پہ تیز روشنی والی لائٹس لگی ہیں۔ جب مریض اس میز پہ لیٹتی ہے، آنکھوں کا رنگ بدل جاتا ہے، ڈر اور خوف آنکھوں میں سما جاتا ہے اور سمندر چھلک اٹھتا ہے۔

ایسے مواقع پہ ہم ہمیشہ اپنا ماسک منہ سے ہٹا کے اپنی شناخت کرواتے ہوئے مریض کا ہاتھ تھامتے اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھے۔ آنکھوں کا موسم پھر بدل جاتا ہے۔ اب تشکر کے رنگ نمایاں ہیں۔ وہ ہمارا ہاتھ تھام لیتی ہے اور ہم اس لرزتے ہوئے ہاتھ کو اپنا لمس محسوس کرنے دیتے ہیں۔ جذبات کے اس دریا کو دونوں کناروں پہ الفاظ کی ضرورت نہیں پڑتی۔

آج کل میڈیکل سائنس سیزیرین کے لئے مکمل بے ہوشی کے حق میں نہیں سو مریض کا نچلا دھڑ سن کرنے کے لئے کمر میں ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ مریض جاگتی رہتی ہے۔ اس کے پیٹ اور چھاتی کے درمیان ایک پردہ تان دیا جاتا ہے۔ وہ ہمیں سنتی ہے اور ہم اکثر اس کے نام سے مخاطب کر کے اسے بتاتے ہیں کہ آپریشن شروع ہوا چاہتا ہے۔ اس وقت ہم اس کی آنکھوں میں جھانک نہیں سکتے لیکن ہمیں علم ہے کہ اب بے چینی اور انتظار کی کیفیت چھلک رہی ہو گی۔ آخر ہم بھی تو کبھی اس مرحلے سے گزرے تھے۔

آپریشن کا آغاز ہوتا ہے۔ جلد، چربی، فیشیا، ریکٹس شیت، پیری ٹونیم کی پرتیں کاٹتے ہوئے بطن تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہماری اسسٹنٹ اور نرس کٹی ہوئی پرتوں کو پکڑ کے خون کا اخراج بند کرتی ہیں۔ ہماری نظر کے سامنے مثانہ اور رحم ہے۔ مثانے کو احتیاط سے عکیحدہ کرتے ہوئے رحم میں کٹ لگاتے ہیں۔ پانی کی تھیلی سامنے ہے جس میں دور سے آنے والا مسافر تیر رہا ہے۔ تھیلی پھوڑی جاتی ہے اور ننھے فرشتے کا بالوں بھرا سر ہمارے سامنے ہے۔ ہم اپنا دایاں ہاتھ اس کے سر کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے باہر کی طرف کھینچتے ہیں، ماتھا، آنکھیں، ناک، منہ، ٹھوڑی۔ اب گردن کی باری ہے ہم اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گردن کے گرد ڈالتے ہوئے احتیاط سے کھینچتے ہیں، کندھے، بازو، پیٹ، ٹانگیں، پاؤں۔ لیجیے دور دیس کا مسافر آن پہنچا۔ ہم مریض کو اونچی آواز میں بتاتے ہیں۔ اور ہمیں علم ہے کہ اب ان آنکھوں میں خوشی کے نقرئی رنگ بھر چکے ہوں گے۔

ننھا مسافر اتنی ہلچل دیکھ کے گھبرا جاتا ہے اور چیخ کی صورت میں آواز بلند کرتا ہے۔ اس چیخ کے ذریعے کائنات میں پہلی سانس بانسری کی سریلی کوک بن جاتی ہے۔ ہم سب ماسک کے پیچھے مسکرا اٹھتے ہیں۔ ہماری سماعت میں یہ چیخ دنیا کی اعلیٰ ترین موسیقی سے کسی صورت کم نہیں کہ زندگی نے اپنی آمد کی اطلاع دی ہے۔

بچہ ماں کی ٹانگوں پہ لیٹا ماں کی آنول سے ہمیشہ کے لئے جدا ہونے کا ا انتظار کر رہا ہے۔ وہی آنول جس نے نو ماہ اسے ماں سے نہ صرف جسمانی خوراک کے کر دی بلکہ ماں کی ہر کیفیت اسی کے ذریعے بچے پہ اثر انداز ہوئی۔ کب کب ماں ہنسی اور روئی، کب محبت کے حصار میں رہی اور کب دھتکاری گئی، یہ اس ننھے فرشتے کو نو ماہ کی ہمراہی میں علم ہو چکا ہے۔

ننھا مسافر گھبرایا ہوا ہے۔ اسی اضطراب میں کبھی ہماری انگلی تھامتا ہے اور کبھی آنکھیں کھول کے مسکراتا ہے۔ ایک مرتبہ ننھے فرشتے کی گرفت اس قدر تھی کہ ہماری اسسٹنٹ نرس کو ہماری انگلی چھڑوانی پڑی۔ ادھر ادھر دیکھنے کے ساتھ ساتھ بازو اور ٹانگیں ہل رہی ہیں اور کوئی کوئی بچہ تو بول وبراز سے بھی وہیں فراغت حاصل کر لیتا ہے۔ ہم سب ہنس پڑتے ہیں۔ ایک منٹ کے بعد آنول کاٹی جاتی ہے اور نرس کے حوالے کرنے سے پہلے ہم اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا کے پردے کے اوپر سے مشتاق ماں کو دیدار کرواتے ہیں۔ اب کے بے قرار ماں کی آنکھیں ہیرے کی کنیاں بن کے چمکنا شروع ہو جاتی ہیں۔

نرس بچے کو لپیٹتی ہے اور ماں کی طرف بڑھتی ہے تاکہ بچہ شیر مادر کی لذت سے اسی گھڑی لطف اندوز ہو سکے۔ ماں کی آنکھوں میں قوس قزح جھلکنے لگتی ہے۔ ماں اور بچے کا پہلا لمس وہ لمحہ جاوداں ہے جو وہاں موجود ہر کسی کے دل کو ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کرتا ہے۔ شاید ہر کوئی اپنی اپنی ماں کی گود کی گرمی اس لمحے میں پھر سے محسوس کر لیتا ہے۔

ہم رحم کو ٹانکے لگا رہے ہیں۔ بچہ سیر ہو کے پرسکون ہوچکا ہے، رونا تھم چکا ہے۔ ماں نے آنکھیں موند لی ہیں، اضطراب ٹھہر چکا ہے۔ رت جگے سے بھری آنکھوں پہ نیند کی دیوی دستک دے رہی ہے۔

ہم جلدی جلدی بطن کی ہر پرت کو ویسے ہی سی کے جوڑتے ہیں جیسے کاٹا تھا۔ تھکن تو ہے لیکن ایک اور زندگی سے ہاتھ ملانے کی فرحت شاد کرتی ہے کائنات کی تیرگی میں ایک اور امید نے جنم لیا ہے۔ تخلیق کے اس سفر میں ہم نے ایک عورت کو اپنی معراج پہ دیکھا ہے۔
یقیناً آپ کو علم ہو گیا ہو گا ہمیں اپنے کام سے کیوں محبت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments