ماؤں کی قید کبھی ختم نہیں ہوتی


\"zafarullah-khan\"

کوئٹہ کے گلیاروں کی اپنی روایت ہے۔ جناح روڈ کے تھڑے، چینکی ہوٹل کی دودھ پتی، ادب، فلسفہ اور سیاست پر نہ ختم ہونے والے مباحث۔ کارل مارکس کی معیشت، فرائیڈ کی نفسیات، درخائم کی عمرانیات اور حتی کہ ’ باسودے کی مریم‘ تک سب یہیں برتا، یہیں سنا، یہیں سیکھا۔ چھ سات برس کی عمر میں نانا جی کے ساتھ تھا تو جناح روڈ پر ہی میر غوث بخش بزنجو کی انگلی تھامنے کا شرف حاصل ہوا۔ بلوچستان کے اجتماعی دانش میں جناح روڈ کے تھڑوں کو وہی حیثیت حاصل ہے جو ایک زمانے میں لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کو حاصل تھی۔ بلوچستان میں اجتماعی ناانصافی کی آواز نے پڑھنے والے طالب علموں کو مایوس کر رکھا تھا۔ کالج سے فراغت کے دن تھے۔ ژوپ سے سائیں کمال خان آئے تھے۔ فروری کی دھوپ میں تپش آتی تو طالب علم سائنس کالج کے ہاسٹل سے نکل کر جناح روڈ کے کسی تھڑے پر سائیں کے قدموں میں بیٹھ جاتے۔

سائیں کمال خان علم کے پیاسوں کے درمیان بیٹھ کر کہتا ہے ’ جبر کی شناخت کوئی شناخت لسانی نہیں ہوتی‘۔ سیکھنے والے کے من کی گرہ کھلتی ہے۔ سیکھنے والا جان لیتا ہے کہ قوم کی اجتماعی دانش جابر کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ ایڈم سمتھ سمجھاتے سمجھاتے جب سائیں اسی تھڑے پر اپنی چادر بچھا کر نماز پڑھنے لگتا ہے تو طالب کو معلوم ہوتا ہے کہ لبرل ازم کا مفہوم لادین نہیں ہوتا۔ اسی تھڑے پر بیٹھ کر جب سائیں کہتا ہے ’شکرونو باسم‘ تو طالب علم کے من میں امید ہلکورے لیتا ہے کہ بہار کا امکان روشن ہے۔

\"heer-01\"

بہار انسانی خوشیوں کی علامت ہے۔ انسانی زندگی میں خوشی کسی متعین کیفیت کا نام نہیں ہے۔ بچوں کی ہنسی میں محبت کا جھرنا بہتا ہے تو مائیں پیرس کی ہوں یا پاک پتن کی، رگوں میں ایک ساشہد بہتا ہے۔ ہندو کش کی برفانی چوٹیوں میں رہنے والے غریب جولاہے ہوں یا فن لینڈ کے برف زاروں میں رہنے والے متمول باسی، فروری کے دھوپ کی تپش من کو ایک سا سرشار کرتی ہے۔ استاد سرآہنگ کی آواز میں جب پشتو لوک گیت ’ گڈ شو د لونگو لو گڈ شو‘ کے سر اٹھتے ہیں تو پکتیا سے لے کر پشاور اور قندھار سے لے کر کوئٹہ تک لونگ کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔

امبی کے بوٹے کے نیچے چرخی کاتنے والی پروفیسر موہن سنگھ کی ہیروئن جب اپنے ڈھولنا کی یاد میں کہتی ہے’ نسدے وی جائیے نی، ہسدے وی جائیے نی‘ تو امرتسر سے گجرات ہر ہجر میں جلنے والی ہر ووہٹی (دلہن) کو یقین ہوجا تا ہے کہ اس لاڑا (دلہا) ایک دن گھر لوٹ کر آئے گا۔ مچھیرے گڈانی کے ہوں چٹاگانگ کے ان کی خوشی سمندر کی تہہ میں تیرتی ہے۔ تھر میں زندگی کے ہونٹوں پر پیاس کی پپڑیاں جمع ہیں مگر تھر کی اندھیر شاموں میں جب ’ کدی آؤ نی راسیلا مارے دیس‘ کی دھیمی دھن اٹھتی ہے تو صحرا کے باسی زندہ رہنے کے تانے بننے لگتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان خوشی ایک سانجھا عمل ہے۔ یہ ایک سر ہو سکتا ہے۔ یہ ایک کلکاری ہو سکتی ہے۔ یہ بہار کی آمد ہو سکتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بہار قیدخانے میں نہیں آتی۔

\"maulana_azad\"

دس سال پیشتر ’ نصاب گل‘ کے فلیپ پر درویش نے لکھا تھا، ’ پت جھڑ کی ہر ٹہنی لہو نشاں ہے اور انسانی معاشرہ جنگل نہیں کہ بہار کی آمد یقینی ہو۔ انسانی اجتماع میں گل کا نصاب مقرر ہے، جسے اداکیے بغیر بہار کاامکان روشن نہیں ہوتا۔ ‘ جانے کب سے ہم اور ہمارے اجداد گل کا نصاب ادا کرنے میں لگے ہیں مگر قید خانے کی قید ختم نہیں ہوتی۔ نوے برس پیشتر قلعہ احمد نگر کے جیل خانے سے ابوالکلام نے لکھا ’ پچھلی پانچ گرفتاریوں کی اگر مجموعی مدت شمار کی جائے تو سات برس اٹھ مہینے ہو گی۔ عمر کی تریپن بس گذر چکے ہیں۔ گویا زندگی کے ہر سات میں سے ایک قید خانہ کے اندر گذرا۔ یہاں کردہ جرموں کی سزائیں تو مل جاتی ہیں، لیکن ناکردہ جرموں کی حسرتوں کا صلہ کس سے مانگیں۔ ‘ غالباً انیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں پچیس سالہ ایمیلی برانٹ نے اپنی نظم ’ قیدی‘ کے ابتدا ء میں لکھا تھا، ’ امید کا ایک پیامبر ہر رات میرے پاس آتا ہے۔ وہ مجھے مختصر زندگی اور من کی آزادی کی دعوت دیتا ہے۔ بھلے تشدد بڑھ جائے مگر میں اپنی آواز سے محروم نہیں ہونا چاہتی‘۔

ایک صدی پیشتر رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے پر باچا خان کو ا نگریز سرکار کے دیسی پولیس کپتان نے گرفتار کیا تھا۔ جیل میں باچا خان کے ناپ کی بیڑیاں موجود نہ تھیں۔ چھوٹے ناپ کی بیڑیاں پہنا کر جب باچا خان کو اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کیا گیا تو ان کی جوتے خون سے رنگین تھے۔ ہماری تاریخ کو وہ بھی دن یاد ہیں جب پرویز رشید کو اس حالت میں اپنی بیٹی کے سامنے بٹھایا گیا تھا کہ ان کی شلوار خون سے رنگین تھی۔ جبر کرنے والے جبر کرتے رہے مگر عقوبت خانے نہ نذیر عباسی کا حوصلہ چھین نہ سکے، نہ باچا خان کا حوصلہ چھین سکے، نہ ابوالکلام کا حوصلہ چھین سکے اور نہ ہماری آواز دبا سکیں گے۔ ہم نے انسانوں سے انسانیت کی امید باندھ رکھی ہے۔

\"pakistan-1984-sharbat-gula\"

وطن عزیز میں ایک مظلوم افغان عورت شربت گلہ قید ہے۔ اپنی سرکاری بابوگیری کرنے کے بعد اب خبر آئی ہے کہ ایک لاکھ دس ہزار روپے کے جرمانے اور پندرہ دن کی قید کے بعد افغانستان بھیجنے کا حکم آیا ہے۔ ایک لاکھ دس ہزار روپے ہوتے تو پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں دربدری کی دھول میں کیوں اٹی رہتی؟ شربت گلہ پہلی بار جون 1985کے نیشنل جیوگرافک کے سرورق پر نظر آئی تھی۔ اس کے بعد وقت کے دھول میں کھو گئی۔ اب نظر آئی تو پاکستانی عقوبت خانے میں نظر آئی۔ غربت سے اس کی آنکھوں میں چمک کی بجائے حسرت ٹپکتی ہے۔ جرم یہ ہے کہ پاکستانی شناختی کارڈ بنوایا تھا۔ یہ واقعی جرم ہے۔ مگر ہمیں یاد ہے کہ جب امریکہ سے ڈالر آتے تھے تو یہ افغان مہاجرین ہماری انکھوں میں بستے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ان کے کیمپوں کے باہر پولیس کے پہرے کے ساتھ امت مسلمہ کے غم میں ہلکان صالحین بھی یہاں ہاتھوں میں بندوقیں لئے پہرہ دیتے تھے۔

وقت نے کروٹ لی۔ روس کے ٹکڑے ہو گئے۔ ہم نے امریکہ کو دینا کا واحد غنڈہ بنانے میں اپنے کاندھے صرف کیے۔ اب ان مہاجرین کی باعزت واپسی کی بجائے ان کی پکڑ دھکڑ کر سپاہی، حوالدار شام تک ہزار، پانچ ہزار کی دیہاڑی لگاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ افغان مہاجرین کا پاکستانی شناختی کارڈ بنانا جرم ہے مگر ہماراسوال ہے کہ قومی حمیت صرف ایک مظلوم ماں کو پکڑ کر کیوں ثابت کی جا رہی ہے؟ کیا اختر منصور کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں تھا؟ کیا ہیبت اﷲ کچلاک میں مدرس نہیں تھا؟ کیا داد اﷲ قلعہ سیف اﷲ آتا جاتا نہیں تھا؟ کیا اسامہ یہیں سے برآمد نہیں ہوا تھا؟ کیا ہم نے پشاور میں گلبدین اور ربانی کے پیر نہیں دبائے تھے؟ کیا ہم نے کوئٹہ میں حامد کرزئی کی خدمت نہیں کی تھی؟اس کے انصاف کے صدقے کہ یہ انصاف تو اتنا خوبصورت ہے جس کی راہ مظہر حسین انیس سال جیل میں تکتے تکتے زندگی کی بازی ہار گیا۔

\"policemen-escort-sharbat-gula-the-green-eyed-afghan-woman-who\"

ہمارے اجتماعی وجود پر ایسے بے شمار زخم ہیں جن سے درد رستا ہے۔ وطن میں ایسی گھڑیاں کئی بار آئیں کہ بچوں کو سکول بھیجتے ماؤں کے دل دھڑکنے لگے۔ اس ناروا فصل کا بیج آپ کا اپنا بویا تھا۔ اس فصل کو کاٹنے کے لئے ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیجیے جن کے آپ شریک جرم رہے تھے۔ ایک مظلوم ماں پر قومی حمیت اور بابو گیری کرنے سے یہ فصل ختم نہیں ہونے والی۔ جرم کی شناخت کو قومیت اور لسانیت سے نہ جوڑیئے۔ عقوبت خانے انسانوں کا حوصلہ پست نہیں کر سکتے۔ ہمیں کونسی زبان بول کر آپ کو بتانا پڑے گا کہ ماؤں کا مقام ان کا آنگن ہوتا ہے کوئی عقوبت خانہ نہیں۔ ماں کی شناخت کاغذ کے ٹکڑے پر درج نہیں ہوتی۔ ماں کی شناخت اس کی مامتا سے کی جاتی ہے۔ مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ قوم کی اجتماعی دانش جابر کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ جامہ ایی کز فراق چاک شدہ، یہاں مگر ماؤں کی قید ختم نہیں ہوتی۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments