بگ برادر دیکھ رہا ہے


اچانک پتا چلتا ہے کہ ایک کارکن، جسے دشمن کے ایک جنگجو نے گھیر لیا تھا، کو گولی مار دی گئی ہے اور وہ بے ہوش ہو گیا ہے۔ اس کی اسمارٹ ڈیوائس اپنے سینسر کے ذریعے اس کی حالت کا فوری پتا لگا لے گی اور نا صرف فوراً اس کے زخمی حصے کے گرد مضبوطی سے پٹی باندھ دے گی بلکہ ساتھ ہی آٹو انجیکٹرز کے ذریعے، ایڈرینا لین شاٹ یعنی انتہائی طاقتور دوا جو چھوٹی شریانوں کو سکیڑ کر دل کی دھڑکن بڑھا دیتی ہے، لگادے گی اور اس دوران فیلڈ اسپتال کی پوری ٹیم کو موجودہ صورت حال کے بارے میں نا صرف فوری ایمرجنسی الرٹ ٹرانسفر ہو رہے ہوں گے، بلکہ اس کی ویڈیو بھی دوسرے اینڈ پر دیکھی جا رہی ہو گی۔ اسی دوران میں ایمبولینس ہیلی کاپٹر زخمی کارکن کو وہاں سے نکالنے کے لئے آ پہنچے گا، جب کہ خود کار بکتر بند گاڑیاں کمک لے کر پہنچ جائیں گی۔ جب کہ ہر کارکن کو ان کی اپنی ڈیوائس کی مدد سے مسلسل راہ نمائی بھی مل رہی ہو گی اور یہ سب کچھ خود کار طریقے سے آرٹیفیشل انتیلیجنس کے ذریعے ہو رہا ہو گا۔

یہ کسی سائنس فکشن مووی کا پلاٹ نہیں ہے، یہ وہ ٹیکنالوجیز ہیں، جو پہلے سے ہی انٹر نیٹ اف تھنگز کے طور پر موجود ہیں یا پھر تیار کی جا رہی ہیں، فائیو جی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی نا صرف جنگ و جدل کے طریقوں کو نئی شکل دینے جا رہی ہے، بلکہ زندگی گزارنے کے نئے طریقے بھی متعارف کرانے جا رہی ہے۔

جب جاپان کے شہر فوکوشیما میں 2011 ء میں زلزلے اور سونامی نے جوہری ری ایکٹرز کو نقصان پہنچایا تھا تو جاپان کے روبوٹکس بنانے والی کمپنیوں کو خصوصی یونٹ تیار کرنے کا ہدف دیا گیا تھا جو ایسے روبوٹس بنا سکیں جو انتہائی زہریلے ماحول میں داخل ہو سکیں اور تاب کاری اثرات کو ختم کر سکیں۔ انہیں ایسے روبوٹس بنانے میں چھے سال لگے۔ بہت ساری ناکامیوں کے بعد وہ اسے بنانے میں کامیاب ہوئے۔

اس کے مقابلے میں جونھی ووہان میں کورونا کی وبا پھیلی چین کی ایک بڑی کمپنی نے بیجنگ کے ضلع شونائی ؔمیں صارفین کو گروسری یعنی کھانے پینے کی اشیا بھیجنے کے لئے بغیر ڈرائیور، ارٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے چلنے والی خود مختار، گاڑیاں استعمال کرنا شروع کر دیں اور اب وہ دار الحکومت کے دیگر اضلاع میں بھی اسی طرح کی، اشیا کی ترسیل کی خدمات شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کمپنی نے پچھلے سال ڈلیوری کے لئے اِن ڈور ڈلیوری روبوٹ اور ڈرون کی ٹیسٹنگ شروع کی تھی لیکن یہ پہلا موقع ہے جب عوامی سڑکوں پر خود مختار ترسیل والی گاڑیاں تعینات کی گئی ہیں جو ایک سو کلو گرام تک کا وزن ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتی ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ یہ گاڑیاں پہلے سے موجود تھیں، لیکن اس وبا نے اس پراجیکٹ کو فوری مقبولیت بخش دی ہے۔

اسی طرح ووہان شہر جو اس وقت لاک ڈاون ہے وہاں نا صرف اسپتالوں میں ایسی خود مختار گاڑیوں کے ذریعے طبی سامان پہنچا یا جا رہا ہے بلکہ ووہان شہر میں مقامی کمیونٹی کو گروسری بھی ایسی ہی خود مختار گاڑیوں کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے۔ ووہان وہی شہر ہے جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی تھی۔

فوڈ ڈلیوری سروس کی کمپنی الی ایم نے مشرقی چین کے شہر وَین زاہو کے ایک قرنطین ہوٹل میں کمروں میں کھانا بھیجنے کے لئے گزشتہ ماہ ترسیل کے لئے روبوٹ تعینات کیے ہیں۔ یہاں روبوٹ سے مراد ایسی مشینیں ہیں جو خود کار ہیں اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کا ڈھانچا انسانی شکل لئے ہوئے ہے۔ یہ کمپنی، جس کی ملکیت علی بابا کی ہے، کئی سالوں سے، فوڈ ڈیلیوری ڈرون اور روبوٹ کے ساتھ تجربہ کر رہی تھی، اَب ان تجربات کو عملی شکل دینے جا رہی ہے۔ یہ وہ وقت ہے، جب روبوٹ فرنٹ لائن میں ہیں، تا کہ انسانی کارکنوں کو کچھ عملی پریشانیوں سے نمٹنے میں مدد دے سکیں۔

ڈرائیور لیس گاڑیوں کی خدمات بطور انڈسٹری پھلنے پھولنے کا بہت زیادہ امکان ہے، کیوں کہ اس طرح کارکردگی زیادہ بہتر اور مزدوری کے اخراجات انتہائی کم ہو سکتے ہیں فل وقت ان کمپنیوں کو چیلنجوں کا سامنا ہے۔ لوگوں، سڑکوں اور عمارتوں کے مابین بات چیت کو دھیان میں رکھنے کے لئے حقیقی زندگی کے حالات پے چیدہ اور مختلف ہیں۔

اس روبوٹک تجربے نے چین کے باہر سے بھی ان ممالک سے جہاں حالیہ ہفتوں میں وبائی حالت مزید خراب ہوئی ہے، ان روبوٹس میں دل چسپی پیدا کی ہے۔ اسرائیل، کوریا، تھائی لینڈ اور یورپ اور برطانیہ کے کچھ ممالک، جو اگر چہ چین سے روبوٹ خریدنے کے بارے میں ہچکچا رہے تھے، لیکن اَب اس صحت عامہ کے بحران کی پیش نظر ایسے روبوٹ خریدنے کے آرڈر دے رہے ہیں۔ اس وبائی مرض کے خاتمے کے بعد سے لوگوں کے چیزوں کے استعمال کرنے، سفر پر جانے، کام کرنے اور میل جول کے طریقوں میں مستقل تبدیلیاں ہونے کا خدشہ ہے۔

اگر چہ یہ تبدیلیاں اگلے دس سال میں متوقع ہیں لیکن یہی وہ پوائنٹ ہے جہاں سے ایک نئی مارکیٹ اور ایک نئی انڈسٹری کا آغاز ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جب ایپل ؔنے اپنا پہلا آئی فون جاری کیا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اسمارٹ فون جہاں آج ہے ایسا ہو جائے گا۔ اس وقت، لوگوں نے سوچا ہوگا کہ ’یہ نیا ہے‘ لیکن انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ روبوٹکس، ٹیکنالوجی بھی اب ایسا ہی ایک نیا موڑ لے رہی ہے، آنے والا دور روبوٹکس کا دور ہے اور یہ ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ اَب ٹیکنالوجی پر امریکہ کی حاکمیت ختم جب کہ چین کی شروع ہونے والی ہے۔ جب کہ ایشیا کے علاوہ پورا یورپ، افریقہ ا ور بذات خود امریکا، کینیڈا اور میکسیکو، چین کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

امریکا کو سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ چین اور مغرب کے مابین مستقبل میں کسی بھی تنازِع کی صورت میں، چین ان نیٹ ورکس کو نا صرف بند کر سکتا ہے بلکہ ان کا کنٹرول خود بھی سنبھال سکتا ہے۔ امریکا کو ایک اور خدشہ بھی ہے کہ اگر تنازِع اس حد تک بڑھ جائے کہ بات جنگ تک پہنچ جائے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ چین ان ممالک کا پور ا نیٹ ورک ہی ہیک کر کے انٹر نیٹ سے جڑی اشیا کو ہتھیاروں میں نہ تبدیل کر دے۔ جیسا کہ بغیر ڈرائیور گاڑیاں اور کچھ نہیں تو اِن نیٹ ورکس کے ذریعے ہر چیز کو بند کر دینے کی صلاحیت چین کے ہاتھ آ سکتی ہے۔ اس طرح حکومتوں کو کنٹرول کرنا آسان ہو جائے گا۔ امریکا کہ نزدیک یہ ایک ایسی ریس ہے کہ جس میں جیت ہر صورت اس کی ہونا چاہیے۔ جب کہ چین کے مقدر میں صرف شکست ہو۔ اور اَب ایسا ہونا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔

بہت زیادہ اعداد و شمار، نیٹ ورک میں بہت کم تاخیر (نیٹ ورک رسپانس ٹائم) اور توانائی کی کم از کم کھپت اور ٹیکنالوجی کی سابق نسل سے کہیں زیادہ بہتر استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ، فائیو جی ڈیجیٹل مواصلاتی نظام، سیاست، اکنامکس، مینجمنٹ، کلچر اور زندگی کے دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ جنگ اور سائبر سیکورٹی کا نقشہ بھی سراسر تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتوں کا طرز عمل بھی یک سر تبدیل ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ فائیو جی نیٹ ورک، سنگل گلوبل گورنمنٹ کی طرف بڑھتا ہوا ایک نیا قدم ہے، جارج اوورویلؔ کا، بِگ برادار، ناول کی دنیا سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنے کو تیار ہے۔ ”بِگ برادار دیکھ رہا ہے“۔

(اس مضمون کی تیاری میں ”دی اکانومسٹ“ اور ”ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ“ سے مدد لی گئی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments