کمزور معیشت کی بحالی موجودہ حکومت کے بس کا روگ نہیں


وائرس کی وبا میں شدت ختم ہونے کے بعد، تمام دنیا خصوصاً پاکستان کو معیشت کی بحالی میں تیزی لانے، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے، غربت کم کرنے، اور پیداواری سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لئے، پہلے سے کہیں زیادہ اساسی منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔

معیشت کی ترقی کے لیے سابق حکومت تن دہی سے عمل پیرا تھی، لیکن، افسوس ملک پر مسلط کیا گیا موجودہ سیٹ اپ ترقی پر مائل معیشت اور بنیادی ڈھانچوں کے تعمیری منصوبوں کو اپنی خراب منصوبہ بندی سے مکمل طور پر معطل کر چکا ہے۔ نتیجتہََ اس وقت ملک اپنی بنیادی مالی ضروریات کو بھی پوری کرنے کے وسائل نہیں رکھتا۔

اقتصادی صورت حال پر نظر رکھنے والے تمام حلقے چند اہم اقدامات کے لیے پر زور تقاضے کرتے چلے آ رہے تھے لیکن موجودہ وفاقی حکومت انہیں یہ کہہ کر مسلسل نظر انداز کرتی رہی کہ سابق حکومت کے غلط فیصلوں کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں۔ در حقیقت انکار کامقصد اپنی نا اہلی کا ملبا سابق حکومت پر ڈالنا تھا، عوام کو جھانسا دینے کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کی گائے بھینسوں اور کاروں کو نیلام کرنے سے لے کر احتساب بیورو کے ذریعے اختیارات کا اندھا دھند استعمال کر کے کرپشن کی کہانیاں گڑھ گڑھ کر حسب سابق مقبول حکومتوں کو عوام میں بد نام کر کے برخواست کرنے کے ہتھ کنڈے استعمال کیے گئے اور سیاسی حریفوں کو انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے الزام ثابت کیے بنا جیل بھیجتے رہے۔ یہ طرز عمل بغیر کسی مضبوط جائز نظام اور طاقت کے بے تحاشا استعمال کے ذریعے آج تک مسلسل جاری ہے۔

شرح سود میں بے تحاشا اضافہ، ٹیکسوں کی بھر مار، بجلی اور گیس کے نرخ میں ہوش رُبا اضافہ غرض عوام کو کچل ڈالنے کا ہر مضموم حربہ استعمال کیا گیا، اس رویے کو موجودہ حکومت مسلط کرنے والے پالیسی ساز معیشت کے درست سمت اختیار کرنے کا پیغام دیتے رہے۔ اندھا دھند معاشی تباہی اور عوام دشمن کارروائیوں نے ملکی پیداواری صلاحیئت کو صلب کر لیا اور بے روز گاری انتہا کو چھونے لگی۔

یقیناً سیاسی مداخلت اور عوام کو نچوڑ ڈالنے کی ہدایات پالیسی سازوں نے کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے دی ہوں گی، جس میں غالب امکان اس بات کا ہے کہ امریکی امداد میں ملنے والے ڈالر کی برسات ختم ہو جانے پر پالیسی سازوں کے جاری بے جا اخراجات کا بوجھ عوام کو کچل کر پورا کیا جائے۔

موجودہ حکومت عوام دشمن اقدامات اٹھاتے وقت، اس بات کو قطعی طور پر نظر انداز کرتی رہی کہ اس کے اٹھائے غلط اقدامات کے باعث سست پڑتی معیشت ایک طرف فی کس آمدنی میں کمی کا باعث بن رہی ہے تو دوسری جانب مہنگائی کا عفریئت پر کھولے آسمان سے باتیں کر رہا ہے، یہ کیفیئت عوام کو چکی کے دو پاٹ بیچ پیس ڈالنے جیسی ہے۔

کورونا کی وبائی چپت لگنے پر بادل نخواستہ ایسے چند اقدامات مثلاً شرح سود میں کمی (گو کہ مزید 2 سے 3 فی صد گھٹائے جانے کی ضروت ہے) اور غربت کی سطح اور اس سے نچلے طبقے کے لئے عارضی امداد، ایکسپورٹر کے عرصہ دراز سے رکے واجبات کی ادائیگی اور تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ دیا جانا دیکھنے میں آئی ہیں، ان اقدامات میں سے دو تہائی پالیسی نکات وہ ہیں، جن پر سابق حکومت آج سے دو برس پہلے عمل پیرا تھی لیکن ان پر عمل در آمد موجودہ حکومت نے روک دیا تھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وبا پھوٹنے سے پیدا ہونے والے حالات میں جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں، یہ پہلے کیوں کر ممکن نہ ہو سکے؟ اب تک ریاست پر مسلط غیر مقبول افراد اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے معیشت کو نقصان کیوں پنہچاتے رہے؟ اور مجموعی قومی پیداوار کو 6 فی صد سے 2 فی صد اور اب منفی 2 فی صد تک دھکیل دینے کا ذمہ دار کون ہے؟

ضد، انا پرستی، نا تجربہ کاری اور بغض و عناد میں ڈوبی حکومتی قیادت کے پچھلے ڈیڑھ سے زائد برس اس بات کا مکمل اور واضع ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ احمقانہ سخت گیری کی عادی یہ حکومت بشمول پس پردہ پالیسی ساز مثبت اشاریے دینے پر فی الوقت بے دلی سے مائل نظر آتے ہیں، وہ دیرپا نہیں ہیں۔ غالب امکان یہ ہے کہ کچھ ہی وقت میں اپنی سابق روش کا اعادہ کرتے ہوئے بے تکی اٹھا پٹخ اور عوام کوخوف زدہ رکھنے والے بے جا سخت گیری حربے دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔

اب تک ملک کی معاشی بد حالی کے لئے سابق حکومتوں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں، اب وبا کے پھیل جانے کو اپنی نا اہلی اور ملک کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ زبان درازی اور معاندانہ رویے کے دوبارہ اختیار کرنے کے آثار اس وقت بھی سندھ حکومت سے بر سر پیکار رہنے سے عیاں ہیں۔

موجودہ حالات میں بہترین حکمت عملی عوام میں مقبول قیادت کو حکومت سونپنا ہے جو بنیادی ڈھانچوں کی تیز رفتار تعمیر میں خاطر خواہ تجربہ رکھتی ہو۔ کیوں کہ اساسی منصوبوں کی تعمیر پر عمل در آمد، عوام کو خدمات سے جوڑتا ہے۔ شہری کے معیار زندگی کو برقرار رکھتا ہے اور معاشی پیداوار بڑھاتا ہے۔ کووڈ 19 یا کورونا کے وبائی مرض کے اثرات غیر یقینی ہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان خراب حالات میں پڑنے والا بوجھ خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک پر بہت زیادہ ہو گا۔

ایک بار جب بحران کا شدید مرحلہ ختم ہو جائے تو معاشی بحالی میں تیزی لانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، غربت کو کم کرنے، اور پیداواری سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لئے پاکستان میں پہلے سے کہیں زیادہ بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہو گی، ان منصوبوں پر عمل در آمد غیر پختہ، نا تجربہ کار، چندہ اکٹھا کرنے کے عادی، فلمی اداکاروں جیسی شہرت کے شوقین لوگوں کے بس کا کام نہیں ہے۔

حکومتی معاملات چلانے کے لئے انتہائی سنجیدہ، زیرک اور معیشت کی سوجھ بوجھ اور عوام میں مقبول لیڈر شپ کا کام ہے۔ ملک کو مقبول اور جہاں دیدہ سیاسی قیادت کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس سمت میں قدم بڑھانے کے لئے ایک سے زائد آپشن موجود ہیں، جن پر بنا تاخیر عمل در آمد کی اشد ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ناقابل تلافی نقصان کے امکان بہت قوی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments