محدود سے لامحدود کا سفر!



محدود سے لا محدود کا سفر طے کرنے کے چکر میں انسان نے وہ گل کھلائے کہ پوری مخلوقات ارضی اس کی دسترس اور حیوانیت سے نہ بچ سکی زمین کا کوئی خطہ یا دنیا کی کون سی ایسی مخلوق ہے جو اس کے جبر و استبداد سے یا تو مغلوب ہوگئی ہو یا ناپید اور جو بچ رہی ہیں وہ خود کو اپنے اختتام کے قریب ہوتا پا رہی ہیں انسان نے اپنی خواہشات کی تکمیل میں جاری تگ و دو کو جب سے سماجی بہتری سے نکال کے انفرادی یا شخصی بہتری کی طرف مبذول کیا تو اس نے قدرتی وسائل اور حسن کو تیزی سے تاراج کرتے ہوئے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور پھر اس دوڑ میں اس نے جنگل اکھاڑ ڈالے، میدان ناپ ڈالے، پہاڑ کھود ڈالے، سمندر گھنگال ڈالے، صحرا چھان ڈالے، فضا کو پہلے مسخر اور پھر پراگندہ کر دیا تو پھر خلاء کو گھورنے کی بجائے سیاروں کو پھلانگنے کے ارادے کر لئے، اس ساری تگ و دو میں انسان نے خود کی قدرتی پرامن اور پرسکون زندگی کو خیر آباد کہہ کر مصنوعی مسکن بنائے اور اپنے خیالوں کے وہ محل تعمیر کیے جن کا وجود کرہ ارض کی اکثریت، چاہے وہ خود انسان ہوں یا چرند پرند، نباتات ہوں یا قدرتی حسن سب کو پامال کرتے ہوئے ان کا بری طرح استحصال کیا۔

سائنس کی ایجادات نے جہاں انسان کو ضروریات کے چکر سے نکال کر سہولیات کی طرف گامزن کیا بالکل اسی طرح سماج کی محنت سمیٹنے والوں کو سہولیات سے نکال کر تعیشات کے لا متناہی سلسلے کی طرف گامزن کر دیا، ماضی کی تاریخ اور دیو مالائی کہانیاں قارون کے خزانے اور بڑے بڑے دیو، جن اور پریوں کی لڑائی اور طاقت سے انسان کو قید کرنے کا ذکر کرتی ہیں لیکن آج کی دنیا میں بڑی بڑی ملٹی نیشنلز کمپنیوں نے ایک عفریت کی طرح پوری دنیا کے سرمائے اور وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر عوام کو اپنی کنزیومر سوسائٹی میں تبدیل کر کے یرغمال بنائے ہوئے ہے اور ان سے منافع کی صورت میں اکٹھی کی گئی دولت اتنی زیادہ ہے کہ وہ قارون کے خزانے کے برابر دولت صرف اپنے شئیر ہولڈرز اور ڈائریکٹروں میں تقسیم کر دے لہذا یہ محدود سے لا محدود کی دوڈ اتنی تیزی سے آگے بڑھی کہ اس نے پوری دنیا کے وسائل اور قدرتی حسن کو اپنی نجی ملکیت میں تبدیل کر دیا، جس سے پورے سماج کی اخلاقیات اور روایات کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا اب علاج نہیں کاروبار ہوتا ہے اب تعلیم نہیں بیوپار ہوتا ہے اب انسان قدرتی ماحول میں گھر بنانے کی بجائے بڑی بڑی بلڈنگز کھڑی کرتا ہے اور پھر ایک فلیٹ میں قید ہونے کو بہتر خیال کرتا ہے جب اونچے درخت نہ رہے تو چیلوں نے سیلولر کمپنیوں کے ٹاورز پر بسیرا شروع کر دیا اور جب جنگل ہی نہ رہے تو جنگلی مخلوقات کہاں رہتی؟

کبوتر بھی شہری زندگی کے تنگ و تاریک مسکنوں میں اپنا بسیرا کرنے لگے پھر مکافات عمل دیکھئے پوری دنیا پہ کل معیشت کا راج تھا تو آج پوری دنیا پر کرونا جیسی بیماری سے وحشت کا راج ہے۔ محدود سے لا محدود کے اس چکر نے جہاں بہت سی نباتات اور قدیم جنگلی حیاتیات کو ناپید کیا آج وہ نسل آدم کو اپنی بقا کے لئے پنجروں میں محدود ہو کر رہنے کا بھاشن دے رہا ہے، پہلے وہ اس دنیا کو گلوبل ولیج بنانے کی خاطر فاصلوں کو سمیٹنے اور سماجی رابطوں کو بڑھانے کی بات کرتا تھا تو آج وہ نسل آدم کو بچانے کے لئے لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کو بہتر خیال کر رہا ہے آج کرونا کی وبا پوری ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اپنے پنجے گاڈ رہی ہے لیکن بھوک اور افلاس سے مٹنے والے پسماندہ ممالک کو صرف دور سے دیکھ کر مسکرا رہی ہے کیونکے وہ سماج سے کٹنے اور دور رہنے والوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑتی جیسا کہ پاکستان کی مثال بلوچستان رقبے کے حساب سے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود جو سماجی پسماندگی کا شکار ہے وہاں کرونا کی وبا دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے سوال محدود سے لا محدود کی طرف جانے کے بعد اب پھر ”محدود“ کی طرف منڈلا رہا ہے۔

سرمایہ دارانہ مفادات نے نسل آدم کی پوری بقا کو منافع اور شرح منافع کے حصول کے چکر میں داؤ پر لگا دیا پہلے وہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر روائیتی ہتھیاروں سے لڑا، پھر غیر روائیتی ہتھیاروں سے، بعد میں کیمیائی ہتھیار سے لڑائی شروع کی اور اب حیاتیاتی ہتھیاروں سے لڑ رہا ہے لیکن یہ ساری لڑائی پھر اسی سوال کا پیش خیمہ ہے کہ محدود سے لامحدود اور پھر محدود لیکن کب تک پہلے ہالی ووڈ کی فلموں میں دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایلینز اور خلائی مخلوق اترا کرتے تھے اب حیاتیاتی وائرس اترنے لگے ہیں، کرونا کی وحشت اور اس سے ہونے والی ہلاکتیں اپنی جگہ لیکن ان حالات میں ”انسانیت کی بقا“ کا سوال اگر آپ کے یا میرے دماغ میں ابھی تک موجود ہے تو اس سوال کے مستقل حل کے لئے مجھے اور آپ سب کو ضرور سوچنا ہوگا اور اگر ہم سوچ لیں، کچھ طے کر لیں تو مرنے سے پہلے اور اس دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک دفعہ آخری کوشش کے طور پر اس مستقل حل کی طرف گامزن بھی ہونا پڑے گا ورنہ فوکو یاماہا نے تو صرف تاریخ کا خاتمہ کیا تھا لیکن اس کے پیروکار یہ لوگ انسانیت کا خاتمہ کر دیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments