”ہم سب“ پر ڈاکٹر خالد سہیل کے 300 محبت نامے


دنیا میں ان گنت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو بے شمار کتابیں پڑھنے کے باوجود علم، دانائی اور حکمت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ان کی علمی چھان پھٹک انہیں حقیقت کی شناسائی سے بہت دور لے جاتی ہے اور وہ ساری عمر انتشار خیالات کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا علمی ماحصل چند دعووں تک محدود ہو جاتا ہے اور وہ اپنی فکر میں نرگسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ علم و حکمت کے متلاشی ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ذات کی گہرائیوں میں اتر کر خود شناسی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ایک دن علم و شعور اور آگہی کا انسائیکلو پیڈیا بن جاتے ہیں۔

ایسے نابغہ روزگار لوگوں کی فکر آنے والے دانائی کے متلاشیوں کے لیے ایک ایسے سنگ میل کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے جس پر چل کر وہ نئی سچائیوں کا کھوج لگاتے ہیں اور انسانی سوچ کی لڑی میں کچھ اور نئی دریافتوں کے موتی پرو دیتے ہیں۔ امکانات اور وسعتوں کا یہ سفر صدیوں سے جاری ہے اور یونہی جاری رہے گا۔ موجودہ وقت میں ”ہم سب“ کا ادبی پلیٹ فارم علم و حکمت کے اس سفر کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے اور اسی پلیٹ فارم کے ذریعے سے ہماری آشنائی ایسے ایسے ادبی میناروں سے ہوئی جن کو شاید حقیقی زندگی میں فیس ٹو فیس ملنے کا شرف حاصل نہ ہوسکے مگر ہم سب کے ذریعے سے ایک قلبی وابستگی ضرور ممکن ہو پائی ہے۔

اس ادبی پلیٹ فارم کے ذریعے سے ہماری آشنائی ایک ایسے علمی شاہکار سے ہوئی جس کی زندگی کا نچوڑ سقراط کے اس جملے کے گرد طواف کرتا ہے ہے کہ unexamined life is not worth living اس شخص کا جنم پاکستان میں ہوا مگر اپنی روایتی سر زمین کو چھوڑ کر سات سمندر پار کینڈا میں جا بسا۔ اس روایتی سر زمین کو چھوڑنے کی بنیادی وجہ اس کی باغیانہ اور غیر روایتی سوچ تھی۔ یہ آزاد راستوں کا راہی تھا اور روایات کی شاہراہ پر چلنے کی بجائے اپنے من کی پگڈنڈی پر چلنے کا خواہش مند تھا۔

غیر روایتی سر زمین میں بسنے کے باوجود وہ اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی روایتی سر زمین سے بھی جڑا رہا۔ یہ شخص اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ”ہم سب“ کے ذریعے سے آج بھی منتقل کر رہا ہے۔ ”ہم سب“ پر چھپنے والے اس کے کالموں کی تعداد 300 سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ پیشے کے اعتبار سے آپ ڈاکٹر ہیں اور ایک کامیاب سائیکوتھیراپسٹ ہیں۔ ہیومنسٹ ہونے کے ناتا سے انسانوں کے ساتھ اس کی وابستگی رنگ نسل اور مذہب سے بالاتر ہے۔

اس کی نظر میں روحانیت ایک انسانی خاصہ ہے اور اس کو خاص طور پر مذہب سے نہیں جوڑا جاسکتا اس کا ماننا ہے کہ spirituality is a part of humanity not divinity اس کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو اپنے ذاتی سچ کو پانے کی سعی کرنی چاہیے اوروں کے سچ کو ماننے اور اپنانے کی بجائے اپنی ذات کے حقیقی سچ کو کھوجنا اور تراشنا چاہیے۔ اس کی زندگی کا نچوڑ ان چند جملوں میں سمٹا ہوا ہے۔

”There are as many truths as human beings and as many realities as pairs of eyes in this world“
اس شخص کے مضامین زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتے ہیں اور امیدِ سحر کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ تحریریں زنگ آلود انسانی صلاحیتوں پر وارنش کا کام کرتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنے آدرشوں اور اپنے ذاتی سچ کے ساتھ مخلص ہے اور وسعت قلب اتنی ہے کہ کسی بھی رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر سب کے محبت ناموں کا بڑی خندہ پیشانی سے ادبی خطوط کی صورت میں راہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیتا ہے۔ اس کا نوجوانوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ اپنی سوچ کی مہار اپنے ہاتھ میں تھام کر رکھیے اور اپنے فیصلے آزادانہ طور پر خود کیجیے۔ بقول ڈاکٹر سہیل

اپنی پرواز کا اندازہ لگانے کے لیے
ہم نے ماحول سے آزاد فضائیں مانگیں

اس سیکولر ہیومنسٹ شخص کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے جنہوں نے اپنے 300 محبت نامے ”ہم سب“ کے ذریعے سے انسانیت کے نام لکھے۔ میں اس ادبی کاوش کو آگے بڑھانے میں ”ہم سب“ کی ساری ٹیم اور خاص طور پر استاد محترم وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ کا بھی دل سے شکر گزار ہوں کہ جن کے روشن خیال پلیٹ فار م کے ذریعے سے یہ محبت نامے ہم تک پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments