پسماندہ بستیوں میں کورونا کے حقائق


زیادہ پرانی بات نہیں۔ جولائی 2016 کے آخری ہفتے میں کراچی کے سوشل ایکٹوسٹ واحد بلوچ لاپتہ ہو گئے تھے۔ عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ واحد بلوچ کو اغوا کرنے والے کون ہیں لیکن اس کا اظہار کرنا گویا واحد بلوچ کی زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف تھا۔ اس مشکل مرحلے پر ایک کم سن بچی حانی بلوچ نے اپنے باپ کو ڈھونڈنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اس کا باپ دسمبر 2016 میں زندہ سلامت لوٹا دیا گیا تھا۔ وہ بچی اب بڑی ہو گئی ہے اور اپنے باپ ہی کی طرح کتاب اور قلم کا پرچم اٹھائے لیاری کی گلیوں میں سماجی اور سیاسی کام کرتی ہے۔ حانی بلوچ واحد بلوچ ہی کی نہیں، سارے پاکستان کی بیٹی ہے اور پاکستان کو اس بیٹی پر فخر ہے۔  مدیر

 ٭٭٭     ٭٭٭

کورونا کیا ہے؟ اس میں کیا کیفیت ہوتی ہے؟ اس وبا کے پھیلاؤ کی شرح اور اس کو روکنے کے لیے وائرولوجسٹ اور دوسرے ماہرین موجود ہیں۔ اس وبا کو سمجھانے کی غرض سے طبی ٹوٹکے یا تدابیربتانا میرا قطعی مقصد نہیں ہے۔ یہ سمجھانے اور سمجھنے کا کام کسی محقق، کسی ماہر امراض اور سائنسدانوں کے لیے چھوڑ دیتی ہوں وہ سب اس کے تدارک کے لیے کام کر رہے ہیں بلکہ آج اس کو کسی اور زاویے سے دیکھتے ہوئے کہنا چاہتی ہوں کہ کسی کے لیے یہ وبا سزا ہے تو کسی کے لیے جزا اور بہت سے لوگوں کے لیے مزا….

اب شاید آپ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ جان لیوا وائرس دنیا کے ڈیڑھ لاکھ انسانوں کو موت کی بھینٹ چڑھا چکا ہے، اس کے تذکرے میں یہ لفظ مزا کس زمرے میں آتا ہے۔ جس علاقے سے میرا تعلق ہے اس مسئلے کو پرکھتے اور لوگوں کے نفسیاتی معاملات کو مدنظر رکھ کر کورونا کو وبا کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے مزا جیسے لفظوں کو بھی پیش نظر رکھوں گی جب کورونا کے بارے میں باہر کے ممالک سے یہ خبریں آرہی تھیں تو عموماَ یہاں ہر فرد کا کہنا اور ماننا یہ تھا کہ کیا strategy  بنائی جائے۔ ہر روز معمول کی طرح ہمیں تیار حکمت ِعملی ملتی ہے جیسے کہ ہمیں طبی قید Isolation, Quarantine  اور Lock down یہ سب تدابیر آسانی سے مل گئیں کہ اس مرض کے پھیلاؤ کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے کچھ آگاہی مہم بھی شروع کی گئی۔ اس طرح ہم نے یہ سوچ لیا کہ کیوں نہ اس مہم میں شامل ہو کر اپنے حصے کا کام سرانجام دیں۔ لوگوں کے لیے یہ کام قدرے آسان تھا پر ہمارے لیے یہ کام نہ صرف مشکل تھا بلکہ اب بھی مشکل ہے۔ جس علاقے اور جس گلی میں ہمارا گھر ہے وہاں زیادہ دھاڑی دار مزدور رہتے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر اجرت حاصل کر کے اپنے بیوی بچوں اور خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں، ان کی بھوک مٹاتے ہیں اور یہ بھوک بھی بہت عجیب چیز ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی

مفلسی جس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

ایک ایسا پسماندہ علاقہ جہاں ہم تعلیم کو پھیلانے کی تگ ودو پچھلے چار پانچ سالوں سے کر رہے ہیں تو وہاں ایک بھوکے انسان کو سیلف آئسولیشن کے معجزات اور کرامات بتانا خاصہ مشکل کام ہے پھر اس مہم کے آغاز سے یہ سوچ کر تہیہ کیا کہ گھروں تک راشن پہنچانے کی بنا پر ہی ہم عوام کے جمِ غفیر کی روک تھام کر سکیں گے۔

پھر اس مہم کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوا کہ دوسرے لوگوں کی مدد کے ذریعے کچھ اس حلقے کی مدد کر کے  قرنطینہ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ اسی دوران علاقہ میں بکری باندھنے کے واقعہ پر شور مچ گیا اور ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر یہ سوچتے رہے کہ اتنی جہالت ہے کہ وبا کے ان دنوں میں جب لوگ مر رہے ہیں تو ہمسایہ میں ایک لڑکا بکری خرید کر لایا ہے جس کے باہر باندھنے پر دیگر پڑوسی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ غریب ہمسایہ کا لڑکا بکری کے مالک سے یومیہ دس بیس روپے کی خاطر اس جانور کو سنبھالنے، چارا اور پانی دینے کے لیے اسے لایا تھا۔ یہ سوچ کر ہمیں پشیمانی ہوئی کہ ہم بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو جاہل جیسے القاب سے نوازتے ہیں جبکہ حقائق بالکل اس کے برعکس ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایک بار پھر ہمیں شرمندگی ہوئی جب ہمیں یہ علم ہوا کہ ایک خاتون کو دو بار راشن ملا تھا اور کسی نے اسے کریانہ کے دوکان پر راشن فروخت کرتے دیکھ کر ہمیں بتا دیا تھا۔ جب ہم نے اس خاتون سے پوچھا کہ راشن بیچنے کے بجائے آپ یہ راشن کسی اور ضرورت مند کو دے دیتی تو وہ خاتون بلک بلک کر رونے لگی اور بتایا کہ جس جگہ وہ صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہے وہاں سے ادھار پیسے نہ ملنے کی صورت میں بیمار بیٹی کی دوائیں نہیں خرید پا رہی تھی اس لیے تنگ آ کر ایک جگہ جھوٹ بولنا پڑا کہ ہمیں راشن نہیں ملا ہے تاکہ اس کو دے کر بدلے میں دوائیں خرید سکوں۔ بجائے اس کے کہ ہم لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین کرتے، ہمیں ان کی غربت پر بے بسی محسوس ہوئی۔

اسی دوران ایک دن پھر علاقہ میں شور مچنے پر کھڑکی سے باہر دیکھا تو لوگوں کی آہ و زاری اور رونے کی آواز نے پورے علاقے کو گہرے میں لیا ہوا تھا ماجرہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک جوان عورت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے لمبی قطار میں کھڑی تھی تو یک دم گر کر اچانک اسکی موت واقع ہوگئی کچھ لوگوں کا کہنا تھا گرمی اور دھوپ کی وجہ سے موت ہوئی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم کورونا سے کیوں ڈریں جبکہ موت ایسے بھی آنی ہی ہے۔ ایک بار پھر ہم اشک بار ہوئے اور مایوسی کا یہ عالم تھا کہ ہم اس مہم کو کیسے کامیاب بنائیں تاکہ لوگ گھروں میں رہیں۔۔

جبکہ اسی دوران کچھ اور اموات ہوئیں تو تعزیت پر ایسی باتیں سننے میں آئیں کہ اچھا ہوا، اس وبا کے دوران ہی ہمارا بیمار بھائی (یا ہمارا لختِ جگر) اس دار فانی سے کوچ کر گئے کیونکہ ہم صاحبِ حیثیت نہیں اور نہ ہی عام دنوں میں لوگوں کو کھانا کھلا سکتے تھے۔ یہ وبا کے دن ہمارے لیے خوش آئند ہے اور اسی طرح کچھ لوگوں نے اس وبا کو مزا تصور کیا اور چپکے چپکے سے بیاہ رچانے والے بھی تھے تاکہ وہ چٹھیوں کا مزا لے سکیں، لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ غربت اور تنگدستی کس طرح لوگوں کی سوچ متعین کرتے ہیں کہ ان کو یہ وبا بھی اپنے حالات کی وجہ سے رحمت تصور ہوتی ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ حکومت اور ریاست ان تمام غریب عوام کا خیال رکھیں جن کی زندگیاں اس وبا کی وجہ سے جہنم بن چکی ہے۔ ان کی زندگیوں میں تبدیلی لائے بغیر، ان کی بھوک اور بیروزگار ی ختم کیے بغیر سیلف آئسولیشن کی مہم موئژ نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments