مساجد کھولنا کافی نہیں


حکومت اور علما کے مابین مذاکرات کی کامیابی کے بعد مساجد میںجمعہ نماز اور تراویح کی مشروط اجازت مل چکی ہے۔ صدر پاکستان جناب عارف علوی نے علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور انہیں بیس نکاتی مشترکہ ایجنڈے پر راضی کرلیا جو کہ ایک قابل تحسین پیش رفت ہے۔ ناجانے کیوں گزشتہ ہفتے چیئر مین رویت ہلال کمیٹی جناب مفتی منیب الرحمان نے تمام مذہبی طبقات اور حکومت سے مشاورت کے بنا یکطرفہ طور پر مساجد کھولنے نمازجمعہ اور تراویح کے انعقاد کا اعلان کیا؟اس اعلان نے ملک گیر سطح پر سخت بے چینی پیدا کی۔

سوال اٹھایاگیا کہ آخر مفتی منیب الرحمان کے پاس ایسااعلان کرنے کا کیا جواز اور اختیارہے ؟ کرونا جیسی مہلک وبا کے مسلسل پھیلاؤ کے خطرے کے باوصف یہ اعلان کرکے وہ شہریوں کی زندگیوں کو خطرات میں ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس طرح کاعمل خواہ کوئی بھی شخص کرے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف تصور کیاجاتاہے۔ بہت سارے لوگوں کی رائے تھی کہ ریاست کو ایسے افراد کے خلاف سختی سے بروئے کار آنا چاہیے جو ایمرجنسی کی حالت میں بھی انتشار پھیلانے سے باز نہیں آتے۔

حکومت نے دانشمندی کا ثبوت دیااور اس اعلان کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے مذاکرات کی بساط بچھائی۔مفتی منیب کے اعلان نے کچھ چبھتے ہوئے سولا ت ضرور جنم دیئے ہیں جن پر گفتگو ہونی چاہیے۔مثال کے طور پر علما کو یہ گمان کیوں ہے کہ پاکستان میں وہ تنہا اسلام کے محافظ ہیں ۔ ان کے علاوہ تمام لوگ خواہ وہ ارکان پارلیمان ہوں یا سرکاری حکام سب ہی مغربی تہذیب کے دلدادہ اور مذہب بیزار ہیں۔

فرنگی عہد میں ایسی سوچ پالنے کی سمجھ آتی ہے۔اہل مغرب علوم وفنون کے امام تھے اور مسلمانوں کا ظاہری اور باطنی وجود تحلیل ہوچکا تھا۔منبر ومحراب کے علاوہ کوئی ادارہ نہ تھا جو دینی معاملات میں عامتہ الناس کی راہنمائی کرتا۔ علاوہ ازیں انگریزوں اور ان کے رنگ میں رنگے ہوئے’’ دیسی‘‘ مفکرین مشترقین کے زیراثر آئے روز مذہب کی شبیہ بگاڑنے اور اسے اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ۔

مفکرین مغرب کی طرف سے مسلسل علمی یلغار تھی۔ قلوب واذہان کو مسخر کرنے کی منظم کوشش کی جاتی تھیں۔ ان کوششوں کاسدباب کرنے اور لوگوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے علما کی طرف راہنمائی کے لیے رجوع کرنا فطری تھا ۔

غلامی کا دور تمام ہوا۔ اسلامی ملک پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ دستورپاکستان کسی بھی غیر اسلامی قانون کو برداشت نہیں کرتا۔پارلیمان کے اندر صرف مذہبی جماعتوں کے ارکان ہی نہیں بلکہ دیگر شخصیات بھی اسلامی اقدار کی صدق دل سے احترام کرتی ہیں۔انہوں نے ہی 1973کا آئین بنایا اور قرارداد پاکستان کو اس کا حصہ بنایا۔بدقسمتی سے ا نگریزکے زمانے میں ریاستی اداروں اور حکام کے خلاف مزاحمت اور دین کی حفاظت کی جو فکر کوٹ کوٹ کرعلما اور ان کے پیروکاروں کو ذہن نشین کرائی گئی تھی‘ وہ آج بھی پوری آب وتاب سے قائم ودائم ہے۔

انگریزی عہد کی نفسیاتی کیفیت کا ابھی تک قیدی ہے۔ چلیں! معاہدہ ہوگیا اب نماز جمعہ اور تراویح مساجد میںادا کی جائے گی۔لیکن بات ختم یہاں نہیں ہورہی۔سوال یہ ہے کہ عالمی ادارے پاکستان میں کرونا سے متوقع ہلاکتوں کے بارے میں جو امکانات ظاہر کررہے ہیں ان سے کیسے بچا جائے ۔ مثال کے طور پر لندن کے امپیریل کالج نے پیش گوئی کی کہ اگر کرونا سے بچنے کے لیے معقول احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئی تو پاکستان کے پنتالیس لاکھ کے لگ بھگ شہری اس جان لیوا بیماری کا شکا رہوسکتے ہیں۔دنیا کے دیگر بے شمار ادارے مسلسل تنبیہ کررہے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں کرونا سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہونے کے امکانات ہیں۔

کرونا وائرس آج نہیں تو کل کسی ویکسین کے ہاتھوں ڈھیر ہوجائے گا لیکن معاشروں میں پائی جانے والی نفرت، عداوت اور بالادستی کی خواہشات کا قلع قمع کرنے کے لیے اجتماعی شعور اجاگرکرنے کی ضرورت ہے۔جمعہ نماز ضرور ادا کریں اور تراویح کے لیے بھی جمع ہوں لیکن اس موقع کو استعمال کرکے لوگوں کو منظم کرنے اور انہیں ایک پرامن اور ذمہ دار شہری بننے کی تلقین کریں۔ انہیںذہن نشین کرائیں کہ ان کے ایک غلط عمل سے ان کا خاندان ،عزیز و اقارب  اور دوسرے ملنے جلنے والے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اوروں کی حفاظت اور ان کی سلامتی کا خیال رکھنا اپناخیال رکھنے سے زیادہ ضروری ہے۔

صحت اور صفائی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات انسانی تہذیبوں کا زیور ہیں۔ طاقوں میں سجانے اور چومنے کے علاوہ انہیں عمومی طور پر فراموش کردیاگیاہے۔ اللہ تعالے نے باربار فرمایا کہ وہ پاکیزگی کو پسند کرتاہے۔صفائی کی تلقین کے علاوہ یہ موقع ہے کہ علما نمازوں کو باورکرائیں کہ ریاستی قانون پر عمل درآمدبہت ضروری ہے؟ سگنل توڑنا بہادری نہیں ۔ بہادری یہ ہے کہ کوئی دیکھ نہ بھی رہاہو توبھی سگنل نہ توڑا جائے۔چند روز بعدشروع ہونے والے رمضان کوعوام کی تربیت کے لیے پھرپور طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔

ٹی وی چینلز بھی رمضان کے حوالے سے بے شمار پروگرام کرتے ہیںاگرچہ اکثر بے مقصد ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں میں لوگوںکو بتایا جائے کہ ریاستی ادارے اور شہری ایک دوسرے کے مخالف نہیںبلکہ مددگار ہوتے ہیں۔ ہلڑ بازی، قطار نہ بنانا اور دھونس جما کر کام نکلوانے والوں کی عزت نہیں کی جاتی۔حقوق اللہ کی معافی کے امکانات روشن ہیں لیکن انسانوں یعنی خدا کے کنبے سے اچھا سلوک کیے بغیر کوئی شخص اللہ تعالے کا قرب حاصل نہ کرپائے گا۔

ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی اور امریکہ کے مسلمانوں نے مساجد کا تصور ہی بدل دیا ہے۔ وہ مسجد کو اب محض صرف نماز کی ادائیگی کی ایک جگہ کے طور پر استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کے اندر لائبریری، جم، تربیتی کلاسیزکا اہتمام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مبین شاہ نے کولالمپور سے ایک تصویر بھیجی جو ظاہر کرتی ہے کہ مساجد میں اب بیت المال بھی قائم ہے جہاں سے ضرورت مند وں کی مدد کی جاتی ہے۔ ان آئیڈیاز سے استعفادہ کرنے ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments