انفوڈیمک یا جعلی خبروں کی وبا سے کیسے نمٹا جائے؟


کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے وہیں جعلی خبروں اور غلط معلومات نے بھی صحت عامہ کے اداروں کا

ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے کووڈ 19 بحران میں غلط اطلاعات اورجعلی خبروں کو ایک ’انفیوڈیمک‘ قرار دیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے پالیسی مرتب کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

فروری کے وسط میں جرمنی کے شہر میونخ میں خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کے ماہرین کے اجتماع میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گریبیسس نے کہا کہ ”ہم صرف ایک وبا سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ ہم ایک انفیوڈیمک سے بھی لڑ رہے ہیں، جو وائرس سے زیادہ تیز اور آسانی سے پھیلتا ہے۔“ آج انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور فوری پیغام رسانی کے ذریعے جعلی خبریں منٹوں سیکنڈوں میں لوگوں تک پہحنچ جاتی ہیں۔ ان پیغامات میں اکثر کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور صحت سے متعلق غلط یا نقصان دہ معلومات اور مشورے شامل ہوسکتے ہیں، جو صحت عامہ کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرسکتے ہیں اور معاشرتی عدم استحکام اور تقسیم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ایسے میں الجھن کا شکار ہونے کی بجائے ایسی خبروں اور پیغامات کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔ درج ذیل پانچ سوالات کو کسی بھی خبر کا جائزہ لیتے وقت یاد رکھیں۔

1۔ خبروں کا سورس ضرور چیک کریں۔ آیا کہ اس میسج میں کسی مصنف یا صحت کے ادارہ یا کسی یونیورسٹی کی ریسرچ کا حوالہ دیا گیا ہے یا نہیں۔ اگر حوالہ موجود ہے تو آپ خود گوگل کر کے اور اس یونیورسٹی یا صحت کے ادارہ کی ویب سائٹ پر جا کر اس خبر کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل کئی واٹس ایپ میسجز میں ووہان یونیورسٹی کے ماہرین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ریسرچ کے مطابق مختلف اشیائے خوردونوش جیسے لیموں، اورینج، لہسن اور ایوکاڈو کے کھانے سے یہ وائرس مر جاتا ہے۔ مگر ووہان یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ایسی کسی ریسرچ کا سرے سے وجود ہی نہیں۔

2۔ یہ بتانے کے لیے کہ آیا کوئی خبر جعلی ہے یا نہیں، پیغام کو دیکھیں اور سمجھیں کہ کیا بات کی جارہی ہے۔ پیغام کا مواد کیا ہے؟ کیا یہ ایک ہی خبر متعدد جگہوں پر مل سکتی ہے؟ کیا مختلف ماہرین اور ذرائع اپنی رپورٹوں میں اس خبر کا استعمال کرتے ہیں؟ کیہں یہ خبر کسی ایسی ویب سائٹ پر تو نہیں جو اسپانسرڈ یا paid ہے اور اپنی ویب سائٹ پر صارفین کی ٹریفک بڑھانے کے لئے سنسنی خیز خبریں جاری کرتی ہے۔

3۔ خبر کے شائع ہونے کی تاریخ ضرور پڑھ لیں، جس خبر پہ آپ جھنجھلا کر رہ گئے ہیں کہیں وہ آج سے تیس سال پہلے کی تو نہیں۔

4۔ جعلی خبریں اکثر توجہ مبزول کرنے کے لیے ہمیشہ ضرورت سے زیادہ حیرت انگیز اور پریشان کن ہوتی ہیں۔ ان میں مبالغہ کی آمیزش کر کے رائی کا پہاڑ بنانے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے۔

5۔ کسی بھی مشکوک پیغام یا خبر کی حقیقت جاننے کی لیے حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی ویب سائٹوں کا استعمال کریں۔

apnews۔com

APFactCheck

fullfact۔ org/

جیسی ویب سائٹیں اکثر ایسی عام جعلی خبروں سے خبردار کرتی ہیں۔ مضمون کے عنوان کو تلاش کرنے کے لیے آپ سرچ انجن کا استعمال بھی کر سکتے ہیں تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ آیا اسے مین سٹریم میڈیا نے جعلی خبروں کے طور پر شناخت کیا ہے یا نہیں۔

اب ان پانچ سوالوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک واٹس ایپ میسج کو جانچتے ہیں جو اردو سمیت کئی زبانوں میں وائرل ہوا۔ ۔ اس واٹس ایپ میسج کے مطابق زیادہ پی ایچ پہ کورونا وائرس زندہ نہیں رہ سکتا اور اس میسج میں مختلف اشیائے خوردونوش جیسے لیموں، اورینج، لہسن اور ایوکاڈو کی فہرست دی گئی تھی۔ اس واٹس ایپ میسج کے مطابق ان اشیاء کے استعمال سے یہ وائرس خود بخود مر جائے گا اور میسج کے آخر میں Journal of Virology کی ایک ریسرچ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ سب سے پہلے تو پی ایچ کی سطح 0 سے 14 تک ہوتی ہے۔ لیکن اس میسج میں دعوی کیا گیا ہے کہ ایوکاڈو، لیموں اور ڈینڈیلین کی پی ایچ بالترتیب 15.6، 9.9 اور 22.7 ہیں جو کہ درست نہیں ہیں۔

دوسری بات یہ کہ، خون کی پی ایچ عام طور پر 7.35 اور 7.45 کے درمیان رہیتی ہے اور اس میں کھانے پینے کی چیز سے کسی قسم کا ردوبدل کرنا نا ممکن ہے۔ تیسری بات یہ کہ پی ایچ صرف کسی محلول کی معلوم کی جاسکتی ہے، ایک وائرس کی کوئی پی ایچ نہیں ہوتی۔ دراصل اس ریسرچ میں سائنسدانوں نے کورونا وائرس سے متاثرہ چوہوں کے خلیوں کی پی ایچ معلوم کی نہ کہ کسی وائرس کی۔ رپورٹ میں مذکور کورونا وائرس COVID۔ 19 سے بالکل مختلف ہے جو سانس کی بیماری ہے۔ چلیں پی ایچ کی بحث کی چھوڑیں، یہ ریسرچ اپریل 1991 میں شائع کے گئی اور اس ریسرچ میں مذکور کورونا وائرس COVID۔ 19 سے بالکل مختلف ہے جو سانس کی بیماری ہے۔ آخری بات یہ کہ اگر یہ غذائی ٹوٹکا اتنا ہی کارآمد اور آسان ہے تو پھر اس وبا سے دنیا بھر میں اتنی اموات کیوں؟

کسی بھی غذا کا ضرورت سے زیادہ استعمال طبیعت خراب کر سکتا ہے خاص طور سے ہارٹ برن کے مریضوں کے لیے یہ ٹوٹکا اسپتال کا چکر لگوا سکتا ہے۔ لہذا، کسی بھی اول فول ٹوٹکے کو آزمانے سے پہلے کسی معالج سے مشورہ ضرور کر لیں ورنہ کورونا بھگانے کا چکر میں لینے کے دینے نا پڑ جائیں۔ بغیر سوچے سمجھے جعلی خبریں پھیلانے میں حصہ دار مت بنیں۔ ٹینشن نہ لینے کا نہ دینے کا۔

اس تحریر کو لکھنے میں ان ویب سائٹس سے مدد لی گئی:

1. https://www.un.org/en/un-coronavirus-communications-team/un-tackling-%E2%80%98infodemic%E2%80%99-misinformation-and-cybercrime-covid-19

2. https://www.eatright.org/health/wellness/digestive-health/gastroesophageal-reflux

3. https://apnews.com/APFactCheck

4. https://fullfact.org/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments