مونٹیسکیو اور پاکستان


اٹھارویں صدی کے وسط 1748 میں مشہور فلاسفر مانٹیسکیو نے ”دی سپرٹ آف لاز“ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے لوگوں کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ریاست کے اداروں کے درمیان طاقت کی تقسیم کا منصفانہ نظام متعارف کروایا۔ جس میں انہوں نے باور کروایا کہ قانون ساز، عدلیہ اور منتظم اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز کریں گے۔ اس تصور کی جھلک اکیسویں صدی کی ہر ریاست کے نظام میں نظر آتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک نے اس تصور کو اپنے ریاستی نظام میں عملی طور پر لاگو کیا اور وہ دن دُگنی رات چُگنی ترقی کرتے چلے گئے۔ جب کہ دوسری طرف ترقی پذیر ممالک اس تصور کی حقیقی تصویر کو شاید آج تک سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مانٹیسکیو کا یہ تصور پاکستان میں مکمل طور پر پروان چڑھنے میں ناکام رہا۔ اس ناکامی میں سیاستدان، عوام اور ریاستی ادارے پیش پیش نظر آتے ہیں۔

آئینِ پاکستان مانٹیسکیو کے تصور پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سب اداروں کے لیے آئینی حدود تہہ کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے منع کرتا ہے۔ جمہوری ریاست میں مجلسِ شوری کو حاکمیت حاصل ہوتی اور یہ حاکمیت اُسے آئین فراہم کرتا ہے مزید یہ کہ وہ ریاستی اداروں کو مجلس شوری کے سامنے جواب دہ ٹھہراتے ہوئے اُس کی بالادستی کا حکم دیتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ میں ایسا عملی طور پر ہوتا نظر نہیں آیا۔ اس کی وجہ بیرونی سازشیں نہیں بلکہ اندرونی نظام میں خرابیاں ہیں۔ سیاستدانوں نے کبھی مجلسِ شوری کی بالادستی کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ انہوں نے مجلس شوری کو اپنی طاقت بنانے کے بجائے ہمیشہ دوسرے ذرائع کو اپنی طاقت کا سر چشمہ سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں منتخب وزیر اعظم کو عدالتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے تختہ دار پر لٹکوا دیا گیا اور کبھی وزیراعظم کو عدالتی فیصلے سے نا اہل کروا دیا گیا۔

لیکن کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ ان سب حالات و واقعات میں عوام بھی برابر کی قصور وار ہے۔ کیونکہ عوام ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اُس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ شاید اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عوام کو ڈنڈے سے بہت ڈر لگتا ہے اور جن کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ”ڈنڈا پیر اے وگڑیا تگڑیاں دا“ ۔

یہ سب عوامل مل کر ملک کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اس کے نتیجہ میں ملکی نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ طاقت کی منصفانہ تقسیم کے بجائے طاقت بھی پیسوں کی طرح چند لوگوں کے دہلیز کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں جس طرح چاہتے ہیں دیگر ریاستی اداروں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے پورے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اِن حالات کو دیکھ کر بابائے قوم قائد اعظم کی روح بھی کانپ اٹھتی ہوگی کہ کس طرح چند لوگ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے پاکستان کو بند گلی کی طرف دھکیلتے جارہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments